آج – 8؍مارچ 1921
اہم ترین ترقی پسند شاعروں میں شامل ، ممتاز فلم نغمہ نگار، سحرِ حلال اور عظیم شاعر” ساحرؔ لدھیانوی صاحب “ کا یومِ ولادت…
عبدالحئ نام اور ساحرؔ تخلص تھا۔ ۸؍مارچ ۱۹۲۱ء کو لدھیانہ ( پنجاب) میں پید اہوئے۔ خاندانی جھگڑے کی وجہ سے ساحر بچپن ہی میں شفقت پدری سے محروم ہوگئے۔ ان کی تعلیم وتربیت کی تمام ذمے داری ان کی والدہ اور ماموں کے سررہی ۔ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں ملکی سیاست میں حصہ لینے کی وجہ سے بی اے نہ کرسکے۔ کالج سے نکل کر ساحر نے ’ادب لطیف‘ ، ’شاہ کار‘، اور ’ سویرا ‘ کے ادارتی شعبے میں کام کیا۔ ۱۹۴۸ء میں وہ مستقل طو ر پر لاہور سے بمبئی چلے گئے اورفلمی گانے اور مکالمے لکھنے لگے۔ ساحر کی شاعری کا آغاز ۱۹۳۸ء سے ہوا جب وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے۔ ساحر نے اپنے کلام پر کسی سے اصلاح نہیں لی۔وہ ایک انقلابی ذہن رکھتے تھے۔ ’’تاج محل‘‘ ان کی مشہور نظم ہے جس سے ان کو بہت شہرت ملی۔ وہ نظم اور غزل دونوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ ۲۸؍اکتوبر۱۹۸۰ء کو ساحر، بمبئی میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’پرچھائیاں‘ ، ’تلخیاں‘، ’گاتا جائے بنجارا‘، ’آؤ کہ کوئی خواب بنیں‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:120
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
●•●┄─┅━━━★•••★━━━┅─●•●
ممتاز نغمہ نگار ساحرؔ لدھیانوی صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں
تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی
—
چند کلیاں نشاط کی چن کر مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
—
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
—
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
—
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا
—
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
—
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
—
مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم
—
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو
—
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا
—
پھر نہ کیجے مری گستاخ نگاہی کا گلا
دیکھیے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو
—
تو مجھے چھوڑ کے ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھوں میں مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں
—
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
—
ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول خوش گوار نہیں
—
وفا شعار کئی ہیں کوئی حسیں بھی تو ہو
چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں
—
پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں
ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی
—
یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا
اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا
—
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لیے
ترا وجود ہے اب صرف داستاں کے لیے
—
مجھ کو سمجھاؤ نہ ساحرؔ میں اک دن خود ہی
ٹھوکریں کھا کے محبت میں سنبھل جاؤں گا
❂◆━━━━━▣✦▣━━━━━━◆❂
ساحرؔ لدھیانوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ