آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔکو خدایادنہیں
ـــ
دوستی میں جبکہ وہ بےلوث ہوایک جادوئی حس ہوتی ہے
ہم کہیں بھی جاتےہوئےلاہورسےگزریں عرفان کوخبرہوجاتی ہے اوروہ ہمیں قابوکرلیتاہے
عرفان خالص لاہوریا ہےسو اس شہردلپذیرمیں گزرےہرپل میں آپ اس کی دسترس میں ہوتے ہیں
2008 کی دوپہرکاذکرہےمیں ابھی لاہورپہنچا ہی تھااور کچھ گھنٹوں کی دوری پرلاہورریلوےسٹیشن سےکراچی ایکسپریس کامسافرتھا
وقت کم تھااور مقابلہ سخت۔عرفان نےمسافراورسامان دونوں کو سموچا کارمیں ڈھو سیدھا میانی صاحب کےایک گوشےمیں آبسرام کیااورگویاہوا
مینوں لگیا کہ ایہہ جگہ ساڈے مطلب دی جے
قبروں کےدرمیان ایک نسبتاً کشادہ جگہ پرجتنی کشادگی ایک قبرستان میں ہوسکتی ہےایک تھڑا کہ جسکی چوگوشیہ حدملگجےنارنجی رنگ میں رنگی اینٹوں کی ایک قطارسےکی گئی تھی
سرہانےایک کتبہ نشست گاہ فقیردرویش باباساغرصدیقی
ساتھ چبوترے پر قبرکے نشان کی لوح مزار
آخری آرام گاہ فقیر شاعر ساغر صدیقی
یہ ہمارےمحبوب شاعرکا ابدی مسکن تھا
سو اس پل دو پل کےوقفۂ سکوت میں دو درویش (ایک مسافراور ایک لاہوری) ایک تیسرے درویش سے اس کے مدفن کی نشست گاہ پر ملے اور اس کتبے سے ڈھو لگائے سرینہوڑائے ہم نے ساغرکو یاد کیا
جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومرہوگا
ہم نے اس وقت کی دلہن کو بہت یاد کیا
سلیم یزدانی کے ساتھ ایک انٹرویو نما گفتگو میں ساغرؔ نے بتایا تھا کہ انہیں اپنی پیدائش، ماں باپ کے بارے میں کچھ خبرنہیں اور نہ ہی اس ستم زدہ زندگی نے انہیں کسی خونی رشتے کا ساتھ بخشا جسے و ہ بھائی یا بہن کہ سکتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سنا یہ انبالے کے اساتذ ہ کا اعجازتھاکہ وہ اردو زبان اور شعروادب سےبہرہ ورہوئے
ناصرحجازیؔ کےتخلّص سے شعرموزوں کرنے کی ابتدا کرنے والے نے جس دم اپنےلیے ساغرؔ صدّیقی پسند کیااسی لمحے اردو شاعری میں ایک نئے اسلوب نے درویشی کی کالی چادر اوڑھ بے نیازانہ انگڑائی لی
کتنی غزلیں تھیں جو اس تخلّص کے اعجاز سے معتبرٹھہریں اورنہ جانے کتنی اور ہوں گی جو ہوش وخرد کی سرحدوں سے پرے، جنوں اورپری کے عوض معاوضے او ر ایک بےخود ی و بےگانگی کی قیمت اداکرنے میں بے توقیرہوئیں
انبالے کے مہاجر کو تقسیم اور لاہورکی آب وہوا راس نہ آئے ایک شہر دلربا کے در وبام نے ایک جوانِ رعناکو بے خودی کے نشے میں امان تلاش کرتے اورجوگ کی سیاہ چادرکے چیتھڑے اوڑھتے اسی بے نیازی اور کٹھورپن سے دیکھا جو دلرباؤں کا خاصہ ہے۔اگر ڈھونڈنے والی نظرہو تو آج بھی ایک شکستہ ساغرؔ کی کرچیاں لاہورکے کونے کھدروں میں مل جائیں گی۔
موری دروازے کاگم گشتہ ریڈنگ روم ۔ گئے وقتوں کے پاک لینڈ پریس کے سامنے کا فٹ پاتھ۔ داتا دربارکے باہر کہیں ملک تھیٹر کے پاس ایک بند دکان کا زیریں تھڑا۔ چوک رنگ محل کا آستانۂ قلندریہ۔
جابجا ایک چھلکتے ساغرؔ کی باقیات بکھری پڑی ہیں ہوش وخردسےبےگانہ سیاہ پوش ساغرؔبابا کوجب دم رخصت کاالہام ہواتو اس نےکالی چادرتیاگ سفیدکفنی اوڑھ لی
اس مقتلِ گُل میں کچھ دن اس کےچاہنےوالوں نےایک عمرکی بے کسی کے عالم میں اسے خون تھوکتے دیکھا
یہاں تک کہ اس کاسفر تمام ہوا اور ایک درویش کےماننےوالے اسےمیانی صاحب کےمدفن میں گاڑ آئے۔
یونس ادیب نےجب شکست ساغرؔ لکھی تو ہمارےدرویش شاعرکو میانی صاحب میں دفن ہوئےنو سال گزرچکے تھے
اسوقت کےکتبے پرلکھا تھا، اورصاحبونقل کتبہ، کتبہ باشد
عاشق کو سجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکارنہیں ہوتاکہ اس کی پگڑی کہاں گری ہےاور اس کا سر محبوب کے قدموں پرکس انداز سے گرتاہے
وہیں کتبے پر کہیں ایک اور عبارت یہ بتاتی تھی کہ ساغرؔکا قاتل سنگدل سرمایہ دارانہ نظام کا پروردہ بے رحم معاشرہ ہے
اور پھر ساغرؔ کا ہی ایک شعر
سنا ہے اب تلک واں سونے والے چونک اٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے
بہت بعد کےسالوں میں جب میں عرفان کی ہمراہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تھا تووہاں کالے اور کچھ ملگجےنارنجی رنگوں میں رنگی قبر تھی اوربہت سارے ساغر کے شعر
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
ساغرؔ کسی کے حسن تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
اگر آپ آج کے میانی کی بھول بھلیوں میں ثابت قدم رہتے ہوئے ساغرؔ کا کھوج لاتے ہیں جیسا کہ ہمارے دوست طلحہ شفیق لائے تو معلوم پڑے گاکہ قبرپر اب چھت ڈل چکی ہےا ور اب وہاں میلہ لگتا اور لنگرتقسیم ہوتاہے۔
جسکی زندگی درویشی کے چیتھڑے اوڑھنے میں گزری وہ مرنے بے بعد بھی غنی رہا یونس ادیب نے لکھا
ساغرؔصدیقی ایک لوک شاعرتھا۔ ایک لوک شاعرسے بڑھ کرایک انسان پرست مفکرتھا۔ اور ذلت ورسوائی کو گلے لگاکر جیا۔اس کا حوصلہ کوئی کم ظرف نہیں کرسکتا
ساغرؔ کی زندگی پر کچھ تبصرہ نہ کر
اک شمع جل رہی ہے سرِرہ گزارِزیست
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...