ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ
آج اس شعر کے خالق رضی اختر شوق کی بیسویں برسی ہے۔
وہ 23 اپریل 1933ء کو سہارنپور میں پیدا ہوئے اور 22 جنوری 1999ء کو کراچی میں وفات پائی
رضی اختر شوق کا اصل نام خواجہ رضی الحسن انصاری تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن سے حاصل کی اور جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے جامعہ کراچی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا اور پھر ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، جہاں انہوں نے اسٹوڈیو نمبر نو کے نام سے یادگار ڈرامے پیش کئے۔ رضی اختر شوق جدید لہجے کے شاعر تھے اور ان کے شعری مجموعوں میں مرے موسم مرے خواب اورجست کے نام شامل ہیں۔ مرے موسم مرے خواب پر انہیں اکادمی ادبیات پاکستان نے ہجرہ ایوارڈ بھی عطا کیا تھا۔ وہ کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ان کے کچھہ اشعار
اب کیسے چراغ کیا چراغاں
جب سارا وجود جل رہا ہے
دو بادل آپس میں ملے تھے پھر ایسی برسات ہوئی
جسم نے جسم سے سرگوشی کی روح کی روح سے بات ہوئی
ہم اتنے پریشاں تھے کہ حال دل سوزاں
ان کو بھی سنایا کہ جو غم خوار نہیں تھے
مجھہ کو پانا ہے تو پھر مجھہ میں اتر کر دیکھو
یوں کنارے سے سمندر نہیں دیکھا جاتا
آئے ہم شہر غزل میں تو اس آغاز کے ساتھہ
مدتوں رقص کیا حافظ شیراز کے ساتھہ
یہ چاند کہتا تھا کوئی ستارہ زاد ہے یہ
کہا گلاب نے میرے حسب نسب کا ہے
کسی چراغِ سرِ رہِ گذار کی مانند
کوئی بھی اسکا نہ تھا اور یار سب کا تھا
جو وقت گزرے تو سینے پہ بوجھہ بن جائے
کچھہ اسکا حال بھی اس قرضِ بے طلب کا تھا
خود اسکے گھر کی ہی دیوار گر پڑی اس پر
یہ دفن آج ہوا ہے، مرا تو کب کا تھا
ایک ہی آگ کے شعلوں میں جلائے ہوئے لوگ
روز مل جاتے ہیں دو چار ستائے ہوئے لوگ
وہی میں ہوں، وہی آسودہ خرامی میری
اور ہر سمت وہی دام بچھائے ہوئے لوگ
خواب کیسے کہ اب آنکھیں ہی سلامت رہ جائیں
وہ فضا ہے کہ رہیں خود کو بچائے ہوئے لوگ
تیرے محرم تو نہیں اے نگہِ ناز مگر
ہم کو پہچان کہ ہیں تیرے بُلائے ہوئے لوگ
زندگی دیکھہ یہ انداز تری چاہت کا
کن صلیبوں کو ہیں سینے سے لگائے ہوئے لوگ
پھر وہی ہم ہیں وہی حلقہ ٴ یاراں بھی ہے شوقؔ
پھر وہی شہر، وہی سنگ اُٹھائے ہوئے لوگ
اے خدا صبر دے مجھہ کو نہ شکیبائی دے
زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے
خلقتِ شہر یونہی خو ش ہے تو پھر یوں ہی سہی
ان کو پتّھر دے ، مجھے ظرفِ پذیرائی دے
جو نگاہوں میں ہے کچھہ اس سے سوا بھی دیکھوں
یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے
تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
کوئی اتنا بھی نہیں طعنہ ٔٔ رسوائی دے
بارِ دنیا نہ سہی، بارِ صداقت اُٹھہ جائے
ناتواں جسم کو اتنی تو توانائی دے
مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے