17 فروری 1951
یوم پیدائش راشد منہاس شہید
20 اگست 1971
یوم شہادت راشد منہاس شہید۔
راشد منہاس شہید نشان حیدر
والد : عبدالمجید
والدہ : رشیدہ بیگم
خاندان : منہاس راجپوت
وابستگی : پاکستان فضائیہ
یونٹ : اسکوارڈرون نمبر 2
عہدہ : پائلٹ آفیسر
خرم علی شفیق نے اس شہید وطن پائلٹ کی کہانی اپنی کتاب ’’راشد منہاس‘‘ میں بیان کی ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جس کا پیش لفظ راشد منہاس خود لکھ گئے تھے۔ راشد منہاس کے والد کا نام عبدالمجید تھا۔ وہ راجپوتوں کے قبیلے ’’منہاس‘‘ سے تعلق رکھتے۔ جو جموں کشمیر کے علاقے گرداس پور سے تعلق رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں وہ سول انجینئر کی حیثیت سے برٹش آرمی میں شامل ہوئے تھے۔ کچھ عرصہ انھوں نے عراق اور ایران میں گزارا، برما اور آسام کے محاذوں پر بھی خدمات انجام دیں، دہلی میں پوسٹنگ تھی۔ پاکستان وجود میں آیا تو اپنی بیوی رشیدہ بیگم کے ساتھ کراچی آچکے تھے۔
ان کی تین ننھی سی بیٹیاں تھیں۔ پہلا بیٹا 17 فروری 1951ء کو پیدا ہوا۔ یہ راشد تھے۔ راشد بڑے ہوئے اسکول جانے لگے۔ مجید صاحب کے تبادلے ہوتے رہے، بہاولپور، لاہور پھر راولپنڈی اور کراچی ان کے اسکول کالج بھی بدلتے رہے۔ خرم علی شفیق نے راشد کی کہانی بڑی کاوش سے لکھی ہے۔ دوستوں کی مدد لی، گھر والوں سے پوچھا، پھر خود راشد کے خطوط اور ان سے بڑھ کر ان کی ڈائریوں سے ان راہوں کو تلاش کیا جن پر چلتے ہوئے راشد منہاس اس منزل پر پہنچے جہاں پہنچ کر انسان زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔
خرم علی کہتے ہیں ’’راشد نے اپنے خالہ زاد بھائی سے ایک دن ڈائری کی فرمائش کی ان کے پاس پی آئی اے کی ایک ڈائری بیکار پڑی تھی وہ انھوں نے ان کے حوالے کردی۔ چند دن بعد راشد نے وہ ڈائری انھیں دکھائی تو اس میں بڑی شخصیتوں کے اقوال درج تھے جن کا موضوع زیادہ تر حب الوطنی تھا۔ ‘‘
کہتے ہیں آنے والے واقعات اپنا سایہ پہلے ڈال دیتے ہیں۔ اپنی پندرہویں سالگرہ کے دو دن بعد راشد نے اپنی ڈائری میں جو وہ زیادہ تر انگریزی میں لکھتا تھا، لکھا۔
ہم ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتے
ہمیں ایک دفعہ تو مرنا ہے
تو پھر کیوں نہ دے دیں اپنے وطن کو اپنی جان
جو ہم با آسانی دے سکتے ہیں
کراچی میں راشد کو سینٹ پیٹرک اسکول کے کیمبرج سیکشن میں داخلہ مل گیا تھا۔ خرم علی شفیق بتاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ نصاب سے زیادہ توجہ دوسری کتابوں پر دیتا تھا ۔ جنگی ناول، مہماتی کہانیاں، تاریخی کتابیں اور انگریزی شاعری ان دنوں اس کی دلچسپی کے موضوعات تھے۔ شفیق راشد کی ڈائری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اگست کی ایک رات اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ فضائیہ میں بھرتی ہونے کی کوشش کرے گا اور اگر ناکام ہوا تو ہوا بازی کے دیرینہ شوق کو خیر باد کہہ کر بری یا بحری فوج میں چلا جائے گا۔
پائلٹ آفیسر راشد منہاس نے 29 اکتوبر 1969ء کو جب وہ پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں پڑھ رہے تھے، اپنے چھوٹے بھائی راحت اور انجم کو ایک خط لکھا۔ خط کیا تھا ان کی سوچ اور جذبات کی عکاسی تھی۔ انھوں نے لکھا ’’تم اس دنیا میں آنے کا کوئی نہ کوئی مقصد رکھتے ہو۔ تمہارے یہاں ہونے کی وجہ ہے اور اس کی تکمیل کرنا تمہارا کام ہے۔ تم خود فیصلہ کرو کہ اس دنیا کی دیو ہیکل مشینری میں تم کہاں فٹ ہوتے ہو۔ بہت جلد لوگوں کی نظر انتخاب تمہاری جانب ہوگی۔ ہوسکتا ہے قوم کی رہنمائی کے لیے۔ ان کی توقعات پر پانی نہ پھیر دینا۔ یہ تمہارے ذمے ایک اُدھار ہے۔ تمہارے گھرانے کا، تمہارے وطن کا، دنیا کا کہ تم کچھ بنو اور اپنے آپ کو اس کااہل ثابت کرو، یہ تمہاری ذات کا حق بھی ہے۔ عظیم آدمی پیدا نہیں ہوتے۔ وہ اپنے آپ کو عظیم بناتے ہیں۔ ایک ایسا انسان بنوکہ لوگ تم پر فخرکریں۔‘‘
ابھی دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ راشد منہاس نے اپنے وطن اور اپنی فوج کی جس سے ان کا تعلق تھا آبرو کی خاطر جان دے کر دکھادیا کہ وہ انسان کیسے ہوتے ہیں جو عظیم ہوتے ہیں اور جن پر فخر کیا جاتا ہے۔
خرم علی شفیق لکھتے ہیں کہ یہاں سے راشد منہاس کی زندگی کا ایک نیا موڑ آتا ہے۔ کون جانتا تھا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری موڑ ثابت ہو گا۔ وہ ایک دن ایئر فورس سلیکشن اینڈ انفارمیشن سینٹر پہنچ گیا۔ معلوم ہوا تھا کہ درخواستوں کی وصولیابی کا سلسلہ جاری ہے۔ گھر آ کر اپنی امی سے ذکر کیا۔ ماں باپ دونوں کو راشد کے شوق پرواز کا علم تھا، انھوں نے اجازت دے دی۔ راشد نے درخواست داخل کر دی۔ ساتھ ہی سائنس کالج میں بھی داخلہ لے لیا کہ وقت ضائع نہ ہو۔ مگر جلد ہی ایئر فورس کی طرف سے انٹرویو کال آ گئی۔
انٹرویو ہوا اور ساتھ ہی انٹیلی جنس ٹیسٹ اور میڈیکل بھی ہو گیا۔ پھرکوہاٹ میں انٹرسروسز سلیکشن بورڈ میں پیشی اور کراچی میں ماری پور بیس پر طبی معائنے کے مرحلے بھی کامیابی سے طے ہو گئے۔ خرم علی شفیق، منہاس کے سفر حیات کی کہانی جاری رکھتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ فضائیہ میں تربیت کے پانچ مرحلے تھے۔ پہلے دو جسمانی تربیت کے اور آخری تین ہوابازی کی تربیت کے۔ کامیاب ہونے والوں کو پی اے ایف اکیڈمی رسالپور آنے کی دعوت دی جاتی تھی۔ راشد منہاس کو یہ دعوت بھی مل گئی اور وہ رسالپور پہنچ گئے۔
خرم علی شفیق بتاتے ہیں کہ فلائنگ اتنی آسان ثابت نہیں ہوئی جتنا کہ سمجھا جاتا تھا۔ ابتدا میں جب طیارہ تیزی سے ٹیک آف کرتا تو چکر سا آجاتا۔ کبھی قے ہو جاتی، بہر حال وہ دن راشد کی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل تھا جب اس نے پہلی بار تنہا پرواز کی۔ ابتدا میں راشد کو صرف سات منٹ فضا میں رہنے کی اجازت ملی، پھر انھیں پورے ایئر بیس کا چکر لگانے کا موقع دیا گیا۔ ہوا بازی کے مختلف کرتب سیکھنا بھی ان کی تربیت کا حصہ تھا۔
ء1970ء کے آخری مہینوں میں ملک میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ الیکشن ہوئے، بھٹو کی پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں بڑی کامیابی حاصل کی، مشرقی پاکستان کی تقریباً سب ہی نشستیں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ لے گئی۔ سیاسی تعطل پیدا ہوا اور مشرقی پاکستان میں آزادی کے نعروں نے جوش پکڑ لیا۔ راشد منہاس کے لیے انجانے طور پر وہ لمحہ قریب آنے لگا جس کے لیے قدرت اسے تیار کررہی تھی۔ 1971ء شروع ہو چکا تھا۔ راشد اور ان کے ساتھی تربیت مکمل کر چکے تھے۔ انھیں جنرل ڈیوٹی پائلٹ بی ایس سی کی ڈگری پشاور یونیورسٹی سے ملی تھی۔ 13 مارچ کو پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئی اس موقعے پر کیڈٹس کے والدین آئے۔ راشد کے والدین مجید صاحب، رشیدہ بیگم اور دو بہنوں نے آکر راشد کی خوشیوں میں اضافہ کر دیا۔ انہیں کراچی میں پی اے ایف بیس مسرور پر پوسٹ کیا گیا تاکہ لڑاکا پائلٹ کی تربیت حاصل کر سکیں۔
راشد منہاس کی کتاب حیات کا آخری باب خرم علی شفیق ایئرفورس کے ایک بنگالی فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن کے ذکر سے شروع کرتے ہیں۔ اس نے جون 1963ء میں کمیشن حاصل کیا۔ کراچی میں مسرور بیس میں جہاں پائلٹ آفیسر راشد منہاس کی پوسٹنگ تھی، وہ ڈپٹی سیکیورٹی آفیسر تھا، کیونکہ مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہونے کے بعد فضائیہ کے بنگالی افسروں کو فضائی خدمات سے ہٹا کر زمینی ذمہ داریوں تک محدود کردیا گیا تھا۔ وہ بنگلہ دیش کا حامی تھا اور پاکستان سے فرار ہو کر مکتی باہنی میں شامل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
اس کی نگاہ انتخاب راشد منہاس پر پڑی کیونکہ وہ دبلا پتلا تھا۔ خرم علی لکھتے ہیں۔’’20 اگست 1971 کی صبح تھی راشد اپنی تیسری سولو فلائٹ کے لیے تیار ہوا وہ ٹارمک پر پہنچا اور اپنے طیارے ٹی 33 جیٹ ٹرینر پر بیٹھ گیا، عین اسی وقت دور کونے پرکھڑا مطیع الرحمن وہ نمبر نوٹ کر رہا تھا، جو طیارے کے ناک اور دم پر لکھا تھا نمبر نوٹ کرنے کے بعد مطیع الرحمن اپنی کار میں بیٹھا اور ٹارمک کے ساتھ والی سڑک پر ٹیکسی انگ ٹریک کی طرف چل دیا اور وہاں پہنچ کر رک گیا۔ گیارہ بج کر چھبیس منٹ پر راشد کے طیارے کوکلیئرنس کال ملی اور اس نے آہستہ آہستہ حرکت شروع کی۔ اس روز اس کے طیارے کی کال سائن ون سکس سکس (166) تھی وہ ٹارمک سے نکل کر ٹیکسی انگ کی طرف بڑھا اور دائیں جانب مڑ کر ٹیکسی انگ ٹریک پر نمودار ہو گیا، سامنے مطیع الرحمن کی کار کھڑی تھی۔
11 بج کر 29 منٹ پر اچانک کنٹرول ٹاور کو وائرلیس پر پیغام ملا ’’ون سکس سکس ہائی جیکڈ‘‘ یہ آواز راشد منہاس کی تھی وہ کاک پٹ کے اندر مطیع الرحمن سے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔ طیارہ کبھی اٹھتا کبھی نیچے آتا، کبھی ادھر ادھر ہچکولے کھاتا۔ پھر وہ آخری مرتبہ جھکا اور تیزی سے زمین سے ٹکراکر تباہ ہو گیا۔ دو روز بعد حکومت اعلانیہ شایع ہوا ’’مطیع الرحمن نے زبردستی راشد کے طیارے کے کاک پٹ میں گھس گیا، مطیع الرحمان نے راشد منہاس کو سر پرضرب لگا کر بے ہوش کیا اور طیارے پر قبضہ کر لیا۔ ٹیک آف کر کے طیارے کا رخ بھارت کی طرف موڑ دیا۔ اس وقت جب ہندوستان کا فاصلہ 40 میل رہ گیا تھا، راشد منہاس کو ہوش آیا اور انہوں نے طیارے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی، اس میں ناکامی کے بعد جبکہ ہندوستانی سرحد سے محض سرحد 32 میل دور تھی۔ نوجوان پائلٹ راشد منہاس کے طیارے کو بھارت میں داخل ہونے سے روکنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا جو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس نے اختیار کیا اور پاکستان اور اس فوج کی جس سے اس کا تعلق تھا آبرو کی خاطر اپنی جان کی عظیم قربانی پیش کر دی۔ جس جگہ طیارہ گرا تھا۔ اسے اب” شہید ڈیرہ“ کا نام دے دیا گیا ہے۔ پہلے اس کا نام ” جنڈے “ تھا۔ یہ علاقہ کراچی سے شمال مشرق کی طرف دریائے سندھ کے کنارے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے۔۔
راشد منہاس کو 21 اگست 1971 کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا اور اس نوجوان پائلٹ کے پورے خاندان سمیت پاک فضائیہ اور دیگر مسلح افواج کے عہدیداران اس موقع پر موجود تھے۔
فرض کی پکار سے بڑھ کر شجاعت کے اس کارنامے پر راشد منہاس کو بعد از وفات پاکستان کا سب سے اعلیٰ فوجی اعزاز نشان حیدر دینے کا اعلان اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان نے کیا اور اس طرح وہ اس اعزاز کو پانے والے سے سب سے کم عمر اور پاک فضائیہ کے اب تک واحد رکن بن گئے۔ اٹک میں قائم کامرہ ایئر بیس کو ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
28 اگست 1971 کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں عبدالماجد منہاس نے کہا کہ " اگرچہ بیٹے کی وفات کا دکھ کبھی ختم نہ ہونے والا ہے مگر مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اس نے ایک نیک مقصد اور ملک و قوم کے وقار کے لیے اپنی جان قربان کی"۔ ان کا بیٹا شروع سے ہی ایسے کرئیر میں دلچسپی رکھتا تھا جس کے ذریعے وہ ملک و قوم کی خدمت اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ کرسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ راشد منہاس زمانہ طالب علمی میں جنگوں پر لکھی جانے والی کتابوں کو پڑھنا پسند کرتے تھے اور ان کے اہم اقوال اپنی ڈائری پر نقل کرلیتے تھے۔
راشد منہاس کی ڈائری پر درج اقوال میں سے ایک میں کہا گیا تھا " ایک شخص کے لیے سب سے بڑا اعزاز اپنے ملک کے لیے قربان کردینا اور قوم کی امیدوں پر پورا اترنا ہے"۔
راشد منہاس کی تعلیم کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے نے راولپنڈی کے میری کیمبرج اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور سنیئر کیمبرج کراچی سے کیا۔ راشد منہاس نے پاک فضائیہ 1968 میں پاک فضائیہ کا حصہ بنے اور پی اے ایف اکیڈمی سے سائنس کے مضمون میں گریجویشن ڈگری اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔
عبدالماجد منہاس نے کہا کہ ان کی بڑا بیٹا ٹیکنیکل مزاج رکھتا تھا اوربارہ سال کی عمر میں ڈرائیونگ سیکھ چکا تھا۔ اس کی ذاتی لائبریری میں دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ الیکٹرونکس اور علم فلکیات کی کتابیں بھی شامل تھیں۔ اس کے مشاغل میں پڑھنا، فوٹوگرافی، ہاکی اور بلیئرڈ شامل تھے۔انہوں نے مزید بتایا کہ راشد منہاس ابتدائی عمر سے مزاجاً ایک آئیڈیلسٹ تھے جو اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ راشد منہاس اپنے بہنوئی میجر ناصر احمد خان سے بہت زیادہ متاثر تھے جنھیں ستارہ جرات سے نوازا گیا تھا " میرا بیٹا ہر کام کو مکمل کرنے والا، متعدل مزاج لڑکا تھا اور اسے پیسہ کمانے سے دلچسپی نہیں تھی"۔
عبدالماجد منہاس نے کہا کہ راشد منہاس اپنی پیدائش سے ہی پاک فضائیہ سے جڑا ہوا تھا کیونکہ اس کی پیدائش کراچی کے ڈرگ روڈ پر واقع پی اے ایف ہسپتال میں ہوئی " میرے بیٹے نے اتنی بڑی قربانی دے کر میرا سر فخر سے بلند کردیا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا " ہمارے پاس ایسے فوجی ہیں جو اپنی زندگیاں قوم پر نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں"۔‘
قوم وطن کے اس ہونہار فرزند کو سلام پیش کرتی ہے۔ جب تک ملک کے دفاع کرنے والے ایسے اقبال کے شاہین سلامت ہیں، دشمن اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود