– 15؍ مئی 1863
اردو شاعری کے عزیمآباد اسکول کے علمبرداروں میں ایک نمایاں نام” رنجورؔ عظیم آبادی صاحب “ کا یومِ ولادت…
رنجور ان شاعروں میں سے ہیں جن کی شاعری عظیم آباد کو ایک الگ دبستانی حیثیت دینے میں معاون رہی۔ ان کی پیدائش 15؍مئی 1863ء کو صادق پور (بہار) میں ہوئی۔ نام محمد یوسف جعفری تھا ، رنجورؔ تخلص اختیار کیا۔ شمس العلما اور خان بہادر خطاب پائے۔ ابتدائی تعلیم اپنے چچازاد بھائی مولانا عبدالحکیم سے حاصل کی اور 1883 میں کلکتہ یونیورسٹی سے انٹرنس پاس کیا۔ مدرسہ عالیہ کلکتہ کے رکن منتخب کئے گئے۔ کلکتہ یونیورسٹی کے صدر مدرس رہے اور بورڈ آف اکزامینیشن کے رکن منتخب کئے گئے۔
رنجور مولانا اابولکلام آزاد کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ آزاد نے اپنے خطوط میں متعدد جگہوں پر رنجور کا ذکر کیا ہے ۔
رنجور نے اپنی شاعری کی اشاعت میں کبھی دلچسپی نہیں لی۔ اسی بنا پر وہ ایک لمبے عرصے تک پردۂ خفا میں رہے۔ خدا بخش لائبریری سے دستیاب ہونے والی ان کی بیاضوں کو دیوان رنجور کے نام سے شائع کیا گیا۔ رنجور کی شاعری میں سنجیدہ فکری مضامین کے ساتھ ساتھ طنز ومزاح کی صورتیں بھی نظر آتی ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر رنجورؔ عظیم آبادی کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
جنازہ دھوم سے اس عاشق جانباز کا نکلے
تماشے کو عجب کیا وہ بت دمباز آ نکلے
اگر دیوانہ تیرا جانب کہسار جا نکلے
قبور وامق و مجنوں سے شور مرحبا نکلے
ابھی طفلی ہی میں وہ بت نمونہ ہے قیامت کا
جوانی میں نہیں معلوم کیا نام خدا نکلے
کہاں وہ سرد مہری تھی کہاں یہ گرم جوشی ہے
عجب کیا اس کرم میں بھی کوئی طرز جفا نکلے
مرا افسانہ ہے مجذوب کی بڑ گر کوئی ڈھونڈے
نہ ظاہر ہو خبر اس کی نہ اس کا مبتدا نکلے
وہ میرے لاشے پر بولے نظر یوں پھیر کر مجھ سے
چلے حوروں سے تم ملنے نہایت بے وفا نکلے
ہمارا دل ہماری آنکھ دونوں ان کے مسکن ہیں
کبھی اس گھر میں جا دھمکے کبھی اس گھر میں آ نکلے
پڑا کس کشمکش میں یار کے گھر رات میں جا کر
نہ اٹھ کر مدعی جائے نہ میرا مدعا نکلے
تڑپتا ہوں بجھا دے پیاس میری آب خنجر سے
کہ میرے دل سے اے قاتل ترے حق میں دعا نکلے
دکھا کر زہر کی شیشی کہا رنجورؔ سے اس نے
عجب کیا تیری بیماری کی یہ حکمی دوا نکلے
═══════════════════
دیتا ہے مجھ کو چرخِ کہن بار بار داغ
اف ایک میرا سینہ ہے اس پر ہزار داغ
دیتے ہیں میرے سینے میں کیا ہی بہار داغ
کھائے نہ ان کو دیکھ کے کیوں لالہ زار داغ
لالہ کرے گا دل کی مرے کیا برابری
اس پر ہے ایک داغ یہاں بے شمار داغ
دنیا کے سارے صدمے ہیں کم ہجر یار سے
دے مدعی کو بھی نہ یہ پروردگار داغ
رکھتا ہے عشق لالہ رخاں دل میں وہ نہاں
سینے پہ ماہتاب کے ہے آشکار داغ
ظلمت سے دی نجات دل داغ دار نے
روشن مثال شمع ہے زیر مزار داغ
ہر دم نہ کیوں لگائے رکھیں سینے سے اسے
اک ماہ رو کے عشق کی ہے یادگار داغ
قاتل مرے لہو نے بھی کیا گل کھلائے ہیں
دامن پہ تیرے دیتے ہیں کیا ہی بہار داغ
جو ظلم چاہے رکھ دل رنجورؔ پر روا
دے تو مگر اسے نہ جدائی کا یار داغ
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
رنجورؔ عظیم آبادی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ