آج – 19/دسمبر 1927
معروف مجاہدِ آزادی، مورخ، ادیب اور انقلابی شاعر” رام پرساد بسملؔ “ کی برسی…
نام رام پرساد، تخلص بسمل تھا ۔ وہ 11 جون 1897ء کو (شاہجہاں پور) اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ وہ بھارت کے عظیم انقلابی اور معروف مجاہد آزادی تو تھے ہی، اعلیٰ معیار کے شاعر، مترجم، ماہر السنہ، مورخ اور ادیب بھی تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے اپنی جان کی قربانی دے دی۔ ’’بسملؔ‘‘ ان کا اردو تخلص تھا۔ بسمل کے علاوہ وہ ’’رام‘‘ اور نامعلوم کے نام سے بھی مضمون اور کلام لکھتے تھے۔ انہوں نے 19 سال کی عمر میں انقلابی راستے پر قدم رکھا اور 30 سال کی عمر میں پھانسی چڑھ گئے۔ 11 سال کی انقلابی زندگی میں انہوں نے کئی کتابیں لکھیں اور خود ہی انہیں شائع کیا۔ ان کتابوں کو فروخت کرکے جو رقم ملی اس سے انہوں نے ہتھیار خریدے اور ان ہتھیاروں کا استعمال برطانوی راج کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے کیا۔ ان کی 11 کتابیں ہی ان کی زندگی میں شائع ہوئیں۔ رام پرساد بسمل کی سدا بہار تخلیق ’’سرفروشی کی تمنا‘‘ ہے۔
رام پرساد کو 30 سال کی عمر میں 19 دسمبر 1927ء کو گورکھپور میں پھانسی دے دی گئی۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
انقلابی شاعر رام پرساد بسملؔ کے برسی پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
بامِ رفعت پر چڑھا دو دیش پر ہوکر فنا
بسملؔ ' اب اتنا ہوش باقی ہمارے دل میں ہے !
—
مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیا !
دل کی بربادی کے بعد انکا پیام آیا تو کیا !
مٹ گئیں جب سب امیدیں مٹ گئے جب سب خیال ،
اس گھڑی گر نام اور لیکر پیام آیا تو کیا !
اے دلِ نادان مٹ جا تو بھی کوئے یار میں،
پھر میری ناکامیوں کے بعد کام آیا تو کیا !
کاش! اپنی زندگی میں ہم وہ منظر دیکھتے،
یوں سرے تربت کوئی محشرخرام آیا تو کیا !
آخری شبِ دید کے قابل تھی 'بسملؔ' کی تڑپ ،
صبح دم کوئی اگر بالاٴ بام آیا تو کیا !
✧◉➻══════════════➻◉✧
جذبۂ شہید ترميم :
بسملؔ کی مشہور اردو مخمس
ہم بھی آرام اٹھا سکتے تھے گھر پر رہ کر
ہم کو بھی پالا تھا ماں باپ نے دکھ سہہ سہہ کر
وقت رخصت انہیں اتنا بھی نہ آئے کہہ کر
گود میں اشک جو ٹپکیں کبھی رخ سے بہہ کر
طفل ان کو ہی سمجھ لینا جی بہلانے کو
اپنی قسمت میں اجل ہی سے ستم رکھا تھا
رنج رکھا تھا محن رکھی تھی غم رکھا تھا
کس کو پروا تھی اور کس میں یہ دم رکھا تھا
ہم نے جب وادی غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو
اپنا کچھ غم نہیں لیکن یہ خیال آتا ہے
مادر ہند پہ کب تک یہ زوال آتا ہے
قومی آزادی کا کب ہند پہ سال آتا ہے
قوم اپنی پہ تو رہ رہ کے ملال آتا ہے
منتظر رہتے ہیں ہم خاک میں مل جانے کو !
نوجوانوں! جو طبیعت میں تمہاری کھٹکے
یاد کر لینا کبھی ہم کو بھی بھولے بھٹکے
آپ کے عضو بدن ہوویں جدا کٹ کٹ کے
اور صد چاک ہو ماتا کا کلیجا پھٹ کے
پر نہ ماتھے پہ شکن آئے قسم کھانے کو !
ایک پروانے کا بہتا ہے لہو نس نس میں
اب تو کھا بیٹھے ہیں چتوڑ کے گڑھ کی قسمیں
سرفروشی کی ادا ہوتی ہیں یوں ہی رسمیں
بھائی خنجر سے گلے ملتے ہیں سب آپس میں
بہنیں تیار چتاؤں سے لپٹ جانے کو !
سر فدا کرتے ہیں قربان جگر کرتے ہیں
پاس جو کچھ ہے وہ ماتا کی نظر کرتے ہیں
خانہ ویران کہاں دیکھیے گھر کرتے ہیں!
خوش رہو اہل وطن! ہم تو سفر کرتے ہیں
جا کے آباد کریں گے کسی ویرانے کو !
نوجوانو ! یہی موقع ہے اٹھو کھل کھیلو
خدمت قوم میں جو آئے بلا سب جھیلو
دیش کے واسطے سب اپنی زبانیں دے دو
پھر ملیں گی نہ یہ ماتا کی دعائیں لے لو
دیکھیں کون آتا ہے یہ فرض بجا لانے کو ؟
نوٹ :- بسملؔ کا یہ اپروکت اردو مخمس بھی ان دنوں مقبول عام ہوا کرتا تھا یہ ان کی غیر معمولی تخلیق ہے یہ اتنی زیادہ جذباتی ہے کہ لاہور کانسپریسی کیس کے وقت جب پریم دت نام کے ایک قیدی نے عدالت میں گاکر سنائی تھی تو سامعین رو پڑے تھے۔ جج اپنا فیصلہ فورًا بدلنے کو مجبور ہو گیا اور اس نے پریم دت کی سزا اسی وقت کم کر دی تھی۔
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
رام پرساد بسملؔ
تلاش : اعجاز زیڈ ایچ
آپ رام پرساد بسملؔ کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔