(Last Updated On: )
نام محمد قیام الدین والد کا نام محمد نظام الدین، تاریخ پیدائش 10 جون 1950ء بمقام برداہا کمتول ،دربھنگہ، تعلیم ایم اے اردو، ایم اے عمرانیات ، ایم اے تاریخ، ادیب کامل، جامعہ اردو علی گڑھ ، عالم ،بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ، پی ایچ ڈی زیر نظر مقالہ ڈی لٹ ،جاری ملازمت لکچرر وصدر شعبہ اردو این جے مہیلا کالج ، لہریا سرائے ، دربھنگہ ادبی زندگی کا آغاز۱۹۷۰ء پہلا افسانہ اندھا قانون کے عنوان سے ماہنامہ پرواز، لدھیانہ اپریل ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا، ابتک تقریبا ڈیڑھ سو افسانے ملک کے مختلف ادبی پرچوں میں شائع ہوچکے ہیں ایک افسانوی مجموعہ تنہائی کا کرب، ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا ہے اور دوسرا زیر طبع ہے افسانوں کے علاوہ بہت سے انشایئے ، تنقیدی وتحقیقی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ کچھ کہانیاں ہندی میں بھی شائع اور نشر ہوچکی ہیں، ایک ناول ،بچھڑی دلہن، اور ایک انشائیوں کا مجموعہ میری جو شامت آئی، شائع ہوچکے ہیں۔
راقم الحروف ہی قیام نیر ہے۔ دوسروں کے بارے میں بہت کچھ کہاجاسکتا ہے لیکن اپنے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے پھر بھی اتنا کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنے افسانوں میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل اور ان کے حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسانے میں کہانی پن اور اس کے مروجہ تکنیک کا قائل ہوں، انتہا پسندجدیدیت کو میں پسند نہیں کرتا۔
(’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم 1996ء‘‘)
ڈاکٹر قیام نیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحیثیت افسانہ نگار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلام نبی کمار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر قیام نیرپچھلی چار دہائیوں سے اردو زبان و ادب کی خدمت میں ہمہ تن مصروفِ عمل ہیں۔ قیام نیر پیشے سے مدرس ہیں لیکن فکشن کے ساتھ ان کی دلچسپی بچپن سے ہی رہی ہے۔ انھوں نے طالبِ علمی کے زمانے ہی سے افسانے لکھنے شروع کیے تھے۔ وہ ایک منجھے اور سلجھے ہوئے فن کارہیں۔’’دُھند‘‘ قیام نیر کا تیسرا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ان کے دو افسانوی مجموعے ’’ تنہائی کا کرب‘‘ (1984) اور ’’تحفہ‘‘ (2000)میں شائع ہو کر ادبی حلقوں میں مقبول ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ نثر کی دو کتابیں ــ’’ بہار میں اردو افسانہ نگاری:ابتداتا تاحال‘‘ ((1996 اور ’’ بہار میں تخلیقی نثر :آزادی کے بعد‘‘(2014 )، ایک انشائیوں کا مجموعہ ’’میری جو شامت آئی‘‘(1992 ) اور ایک ناول ’’ بچھڑی دلہن‘‘ (1993) بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔اس طرح قیام نیر کو بیک وقت اردو ادب کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کا شرف حاصل ہے۔
’’دُھند ‘‘ ڈاکٹر قیام نیرکے 19 افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے انتساب کو انھوں نے اردو زبان و ادب کی آبیاری کررہے تمام ادیبوں اور فن کاروں کے نام معنون کیا ہے۔ پیش لفظ قیام نیرنے جب کہ تقریظ معروف نقاد پروفیسر شہزاد انجم نے تحریر فرمائی ہے۔شہزاد انجم نے لکھا ہے کہ
’’ قیام نیر سماجی مسائل کی تہہ تک پہونچتے ہیں ،انسانی عادات و خصائل کے بطن میں اُترنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِن سب کے بعد انھیں جو کچھ بھی حاصل ہوتا ہے اسے افسانے کا موضوع بناتے ہیں۔‘‘
قیام نیر کے افسانے غور و خوض کی دعوت دیتے ہیں۔انھوں نے افسانوں کے ذریعے سماج میں ہو رہی بے راہ روی، بے حیائی ،سماجی ناانصافی،شکست و ریخت، ہٹ دھرمی،افرا تفری اورفرقہ وارانہ فسادات وغیرہ جیسی بدعت کو موضوعِ خاص بنایا ہے۔ بقولِ قیام نیر:
’’میں نے معاشرے میں بکھرے ہوئے واقعات و حالات، انسانی رشتوں کی بے حرمتی، قول و فعل میں تضاد، شکست، آرزو اور عام انسانوں کی مجبوری اور بے بسی کو زبان دینے کی کوشش کی ہے۔‘‘
’’دُھند‘‘ کا پہلا افسانہ ’’ آخری توبہ‘‘ ہے۔اس افسانے میں قیام نیر ان تلخ آمیز سچائیوں کی طرف ہماری توجہ مرکوز کرنے میںکامیاب ہوئے ہیں جن کی تخم ریزی میں ہمارا معاشرہ ایک خاص رول اد ا کرتا ہے جیسے اسکول میں اساتذہ صاحبان کابچوں کے ساتھ مار پیٹ کرکے اسکول سے بھاگنے پر مجبور کر دینا،پھر گھر میں بھی ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھنا خود ہی اپنے بچوں کو گناہوں کے دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔جہاں سے خال خال ہی واپس لوٹ کے آتا ہے۔ بعض ایسے گم ہوتے ہیں کہ ان کی صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔بچوں میں خوبیوں اور خامیوں کی پیداوارکا سروکار معاشرے کے ذمّے ہوتا ہے۔افسانہ’’ آخری توبہ‘‘ بھی ایسے ہی واقعات کی ترجمانی کرتا ہے۔اس کہانی کا مرکزی کردارگھر سے بھاگنے کے بعد ایک ایسے گروہ میں داخل ہوتا ہے جہاں سے نکلنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔لیکن قدرت اس پر مہربان ہوتی ہے اور ایک سماج سیوک خضر راہ کے موافق اسے گھر کی طرف گامزن کرتا ہے۔ خوش آئند مستقبل کی امید کرتے ہوئے اور معاشی طور بہتر ہونے کے بعدوہ ایک دن کسی ہم سفر کا طلب گار ہوتا ہے ۔اس طرح ایک روز وہ رشتے کے لیے لڑکی کا ہاتھ مانگنے جاتا ہے۔جہاں اس کا رشتہ ٹھکرا دیا جاتا ہے ۔نتیجتاً ہوس کی چاہ میںوہ ایک روز لڑکی کے کمرے میں داخل ہوکر اس کی عزت تار تار کرنے کی سوچتا ہے۔ جہاں اس کے ہاتھ ناکامی لگتی ہے۔اس دوران اذان ہوتی ہے اوریہ لوگوں کو توبہ و استغفار کرتے ہوئے مسجد کی طرف جاتے دیکھتاہے ۔یہ دیکھ کر اس کے اندر انسانیت جاگ اٹھتی ہے اور پھرخود بھی مسجد کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ یہی اس کی ’’آخری توبہ‘‘ تھی۔
دوسرا افسانہ’’ہم سفر‘‘ ہے ۔جس میں ایک بیٹی شادی کے خواب سنجوتی ہے جس کی بہت جلد تعبیربھی ہوتی ہے۔شادی خانہ آبادی کے بعد لڑکی کو ماں باپ سے جدائی کا غم ہوتاہے جو ظاہر ہے زیادہ دیر تک اس پر حاوی نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس کو سسرال میں بہت خوشیاں ملتی ہیں۔جہاں وہ سب لوگوں کا دل جیت لیتی ہے ۔وہ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور وقتاً فوقتاً اپنے ماں باپ کی عیادت کو میکے بھی آجاتی ہے۔یہ افسانہ ایک بیٹی کی اپنوں کے تئیں ایثار و محبت کے جذبے کو بیان کرتا ہے ۔ جو کہ اس کی خوشحالی کا ضامن ہوتاہے۔اس کتاب کا مرکزی افسانہ ’’دُھند‘‘ ہے۔جو اس افسانوی مجموعے کا نام بھی ہے۔جس میں افسانہ نگار نے اردو زبان کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی بد حالی کا رونا رویا ہے۔اس افسانے میں باپ اور بیٹے کی ایک ایسی داستان پیش کی گئی ہے جس میں ایک طرف باپ اردو زبان کا ایک بہت بڑا افسانہ نگار ہوتا ہے ، تو وہیں دوسری طرف بیٹا باپ کی راہ پر نہ چل کر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بے کار بیٹھا ہوتا ہے اور باپ کی عمر بھر کی جمع پونجی (کتابیں جو کہ اس کے بڑھاپے کا سہارا تھیں) کو فروخت کر کے اُن روپیوں کے عوض نوکری حاصل کرنے کا متمنی ہوتا ہے۔ جب اسے اپنے باپ کی عظمت کا پتہ چلتا ہے تب تک وہ بے چارا پرلوک سدھار چکاہوتا ہے۔ افسانہ ’’ سمجھوتہ‘‘ میں فسادات سے متاثرہ خاندان کی دُکھ بھری کہانی پیش کی گئی ہے۔ افسانہ ’’ بھنور کا ساحل ‘‘ اور ’’آگ کی ٹھنڈک‘‘میں تقسیم ملک کے نتیجے میں بچھڑے ہوئے لوگوں کی وطن واپسی اور وطن سے پیار بھرے احساس کا ذکر چھیڑا گیا ہے۔دیگر افسانے’’ دھوپ کا سایہ‘‘ ، ’’رازدار‘‘ ، ’’مداوا‘‘ ، ’’موقع پرست‘‘ اور’’پھول اورکانٹے‘‘ ، ’’انا‘‘ وغیرہ افسانے بھی موضوعات کے لحاط سے بے حد دلچسپ ہیں۔
’’دُھند‘‘ کے بیشتر افسانوں میں قیام نیر نے واحد متکلم کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ انھوں نے متاثر کن موضوعات کو برت کر اپنے افسانوں میں دلچسپی قائم کی ہے۔ قیام نیر کے افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نے ذات پات،نسل ، مذہب، بھید بھاؤ، فرقہ واریت، آپسی رسا کشی،خود غرضی،مطلب پرستی،انسانی ہجرت،زوالِ زبان اور رشتوں کی بے حرمتی وغیرہ کی نہایت دلکش پیرائے میں عکاسی کی ہے۔ان میں قوتِ مشاہدہ اور اسے بیان کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔قیام نیرنے نہ زیادہ طویل افسانے لکھے ہیں اور نہ کرداروں کی ان کے افسانوں میں بھرمارہے۔انھوں نے موزوں الفاظ، لطیف جملوں اور شگفتہ تحریروںسے اپنے مقصد کو واضح کیا ہے۔ان افسانوں میں منظر نگاری، واقعہ نگاری، مکالمہ نگاری،جذبات نگاری کمال کی ہے۔نیز ان کے پلاٹ روزمرہ زندگی کی سے اخذ کیے گئے ہیں۔
بحیثیت مجموعی ’’دُھند‘‘ کے افسانوں میں قیام نیر نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں اور قارئین ِ اردو کو بہترین کہانیوں سے نوازا ہے۔ مجموعے کے آخر میں افسانہ نگار کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔قیام نیر کے افسانے عہد حاضر کے کئی مسائل اجاگر کرتے ہیں۔ موضوعی، فنی اور تکنیکی اعتبار سے قیام نیر نے افسانوں میں کئی اچھے تجربے کیے ہیں۔ان کی افسانوی زبان بہت عمدہ اور شستہ ہے۔اس طرح قیام نیر ایک معتبر افسانہ نگار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔