آج – 4؍ستمبر 2018
کہنہ مشق، زود گو اور قادرالکلام شاعر” قیصرؔ صدیقی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام افتخار احمد تخلص قیصرؔ صدیقی ہے۔ 19؍مارچ 1937ء کو سمستی پور (بہار ) کے ایک گاؤں گوھر نوادہ میں پیدا ہوئے۔ قیصر صدیقی نہایت ہی کہنہ مشق، زود گو اور قادرالکلام شاعر تھے
ان کی سخن سازی سات دہائیوں پر محیط ہے ۔ اس لحاظ سے انہیں صدی کا جریدۂ شاعری قرار دیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے اس عرصے میں شاعری کی مختلف اصناف بلکہ بعض نہایت ہی مشکل اصناف میں بھی کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے تاہم وہ بنیادی طور پر غزل ہی کے شاعر مانے جاتے ہیں اور اب تک ان کے شعری کارنامے جو بصورت کتاب منظر عام پر آے ہیں وہ غزل ہی سے متعلق ہیں۔ آج سے تقریباً 37 سال قبل اولین مجموعۂ غزل" صحیفہ " شائع ہوا تھا ۔ دوسرا اور قدرے ضخیم مجموعۂ غزل " دوبتے سورج کا منظر " اجنبی خواب کا چہرہ ، بے چراغ آنکھیں ، درد کا چہرہ ، غزل چہرہ (ہندی ) نظموں پر مشتمل "سجدہ گاہ فلق " نعت پر مشتمل "روشنی کی بات " زمبیلِ سحر تاب ( ترانۂ سحر) شائع ہو چکا ہے ۔
قیصر صدیقی، 4؍ستمبر 2018ء کو دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئے۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
معروف شاعر قیصرؔ صدیقی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
الزام کچھ نہ کچھ تو مرے سر بھی آئے گا
آنگن میں پیڑ ہوگا تو پتھر بھی آئے گا
سورج کے غسل کرنے کا منظر بھی آئے گا
ان جنگلوں کے بعد سمندر بھی آئے گا
ساماں جراحتوں کے بھی ہم ساتھ لے چلیں
اس راستے میں شہر ستم گر بھی آئے گا
وہ سانپ جس کو دودھ پلاتی ہے دشمنی
تھیلی سے ایک روز وہ باہر بھی آئے گا
پلکوں پہ اپنی خواب تجلی سجائیے
شام آئی ہے تو رات کا لشکر بھی آئے گا
جو سایہ کھیلتا ہے ابھی میری گود میں
اک دن وہ میرے قد کے برابر بھی آئے گا
اس دوپہر کی دھوپ کو شاید خبر نہیں
صحرا میں کوئی موم کا پیکر بھی آئے گا
جب تم نہیں تو اس کا بھی کیا کام ہے یہاں
تم آؤ گے تو بزم میں قیصرؔ بھی آئے گا
═══════════════════
تیرے لہجے کا تری بات کا آئینہ ہے
میرا ہر شعر تری ذات کا آئینہ ہے
تیری زلفوں کے مچلتے ہوئے ساون کا سماں
میرے مہکے ہوئے جذبات کا آئینہ ہے
میرے چہرے کو ذرا غور سے دیکھو تو سہی
میرا چہرہ مرے حالات کا آئینہ ہے
لہلہاتی ہوئی بھرپور جوانی تیری
گنگناتی ہوئی برسات کا آئینہ ہے
اے مری جان غزل اے مری شہناز غزل
تیرا نغمہ مرے جذبات کا آئینہ ہے
══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══
ہم اپنی فکر کا چہرہ بدل کے دیکھتے ہیں
طلسمِ خواب سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں
سنا یہ ہے کہ بہت تیز گام ہو تم لوگ
تمہارے ساتھ ذرا ہم بھی چل کے دیکھتے ہیں
اٹھا کے چاند ستاروں کو سر پہ دیکھ چکے
ہم اپنے ماتھے پہ اب خاک مل کے دیکھتے ہیں
ذرا پتہ تو چلے حسن عہدِ نو کیا ہے
نئی نگاہ کے سانچے میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
نئی حیات کی تصویر دیکھنے والے
حد نگاہ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
یہ کیسے دوست ہیں پوچھے تو کوئی ان سے ذرا
سنبھالتے نہیں لیکن سنبھل کے دیکھتے ہیں
یہاں وہاں تو بہت جل چکے میاں قیصرؔ
اب اپنے دل کی سمادھی پہ جل کے دیکھتے ہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
قیصرؔ صدّیقی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ