حکمرانوں کے بخیے ادھیڑنے والا درزی شاعر
استاد دامن کا اصل نام چراغ دین تھا۔ یکم جنوری 1910 کوچوک متی لاہور میں پیدا ہوئے۔ والد میراں بخش درزیوں کا کام کر تے تھے۔ گھر یلو حالات کے پیش نظر دامن نےبچپن ہی میں تعلیم کے ساتھہ ٹیلر نگ کا کام بھی شروع کر دیا۔ ( بعد میں انہوں نےجرمن فرم جان ولیم ٹیلرز سے ٹیلرنگ کا باقاعدہ ڈپلوما بھی حاصل کیا ) انہوں نے ساندہ کے دیوسماج سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ عمر تیرہ سال ہو ئی تو خاندان چوک متی سے باغبانپورہ منتقل ہو گیا ۔ ۔ شعر گوئی کی ابتدا بڑے بھائی کی وفات پرمرثیے سے کی لیکن باقاعدہ طور پر شاعری کا آغاز میٹرک کے بعد کیا۔
استاد دامن نے شاعری کا آغاز کیا تو ہمدم تخلص کر تے تھے لیکن جلد ہی اسے ترک کرکے دامن اختیار کیا ۔ پنجابی شاعری میں استاد محمد رمضان ہمدم کے شاگرد ہو ئے اور ان کی شاگردی کو اپنے لئے باعث فخر تصور کرتے تھے۔
1940میں میاں افتخار الدین کی صدارت میں ہو نے والے میونسپل کمیٹی لاہور کے اجلاس میں کمیٹی کارکردگی پر تنقیدی نظم پیش کی اور خوب داد حاصل کی ۔ ان کے بعد ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو تا گیا اور انہوں نے سیاسی جلسوں میں بھی نظمیں پڑھنے کا آغاز کیا ۔ وہ سید عطا اللہ شاہ بخاری ،میاں افتخار الدین اور مزدوروں کے جلسوں کی رونق ہوتے تھے۔ حصولِ آزادی کی جدوجہد میں وہ نیشنل کانگریس کے فعال کارکن تھے۔ لاہور کے ایک جلسے میں جس کی صدارت جواہر لال نہرو کر رہے تھے، دامن نے نظم پڑھی جو نہرو نے بہت پسند کی اور 100 روپے انعام دیا( آج کے ایک لاکھہ روپے سمجھہ لیں ) اس کا بہت چرچا ہوا
پاکستان کی آزادی کے بعد ہونے والے فسادات میں ان کی دکان لوٹ لی گئی جس کے سبب زبردست مالی بحران کا شکار ہو کر باغبانپورہ سے بادشاہی مسجد کے قریب
ٹکسالی گیٹ میں واقع مسجد کےاس حجرے میں منتقل ہو گئے جس میں اکبر بادشاہ کے زمانے میں حضرت شاہ حسین بھی مقیم رہے تھے ۔ پھر تادم مرگ یہی حجرہ استاد دامن کا مسکن ٹھہرا۔ کل اثاثہ ان کی چند کتابیں تھیں ۔ 1949 میں استاد دامن کی شادی ہوئی لیکن کچھہ ہی عر صہ بعد ان کا کم سن بیٹا اور بیوی انتقال کر گئے اور پھر تمام عمر شادی نہ کی ۔
دامن نے پنجابی شاعری کی فنی خوبیوں پر ملکہ رکھنے کی بدولت اہل علم وفن افراد سے استاد کا خطاب حاصل کیا ۔استاد دامن مزدوروں ، کسانوں ،غریبوں اور مظلوموں کے شاعر تھے ۔انہوں نے ان طبقوں کی حمایت اور حقوق کیلئے آواز اٹھائی اور ہمیشہ استحصالی طبقو ں کی مذمت کرتے رہے ۔ انہوں نے پنجابی زبان و ادب کے فروغ کیلئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور ادبی تنظیم پنجابی ادبی سنگت کی بنیاد رکھی اور تنظیم کے سکیرٹری بھی ر ہے ۔
استاد دامن کے چاہنے والوں میں بھارتی اداکار اوم پرکاش، پران، اور شیام بھی شامل تھے۔ اوم پرکاش کی فرمائش پر ہی استاد نے نورجہاں کی زیر ہدایات بننے والی فلم چن وے کے اس گیت کا مکھڑا لکھا۔
چنگا بنایا ای سانوں کھڈونا
آپے بنائونا تے آپے مٹائونا
استاد دامن کی سب سے بڑی خوبی ان کی فی البدیہہ گوئی تھی۔ وہ موقع کی مناسبت سے چند لمحوں میں اشعار کی مالا پرو دیتے تھے ۔ آزادی کے کچھہ عرصہ بعد انہوں نے دلی میں منعقدہ مشاعرے میں یہ فی البدیہہ نظم پڑھی :
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او، سوئے اسیں وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دس دی اے
روئے تسی وی او، روئے اسیں وی آں
حاضرین مشاعرہ بے اختیار رونے لگے ۔ مشاعرے میں پنڈت جواہر لعل نہرو (وزیراعظم بھارت )بھی موجود تھے ، انہوں نے استاد دامن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقل طور پر بھارت میں قیام فرمائیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میرا وطن پاکستان ہے ،میں لاہور ہی میں رہوں گا بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں ۔
اس محب وطن شاعر نے ساری زندگی کسمپرسی کی حالت میں گزاری مگر مرتے دم تک اپنے وطن سے محبت کے گیت گاتا رہا ۔ اس دھرتی کو نفرتوں ، بے ایمانیوں اور عیاریوں سے پاک کرنے کیلئے محبتوں کے پھول بکھیرتا رہا اور ان برائیوں کی علانیہ نشاندہی اور مذمت کر تا رہا ۔ استاد دامن نے آزادی کے بعد سیاست دانوں کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پر بھرپور تنقید کی اور عوامی شعور کو بیدار کیا ۔ وہ وطن عزیز کی ترقی کے خواہاں تھے ۔ اس ملک کے دن بدن زوال کی تصویر کشی کرتے ہوئے استاد دامن کہتے ہیں :
بھج بھج کے وکھیاں چور ہوئیاں
مڑ کے ویکھیا تے کھوتی بوہڑ ہیٹھاں
استاد دامن عام بول چال کی زبان میں اپنا خیال پیش کرکے سامعین و قارئین کے دلوں کی گہرائیوں کو چھولیتے ۔ انہوں نے مزاحیہ انداز میں لوگوں کو معاشرتی برائیوں سے آگاہ کیا ۔ ہمیشہ سچ کی تائید اور جھوٹ کی تردید کی ۔
استاد دامن کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف اس عہد کے عظیم اور منفرد شاعر فیض احمد فیض نے ایک نجی محفل میں یہ کہہ کر کیا کہ میں پنجابی میں صرف اس لئے شاعری نہیں کرتا کہ پنجابی میں شاہ حسین ، وارث شاہ اور بلھے شاہ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں ۔
استاد دامن کی یادداشت بہت اچھی تھی ۔ قیام پاکستان کے بعد کچھہ شر پسندوں نے ان کی ذاتی لائبریری اور دکان کو آگ لگا دی تو ان کی ذاتی تحریریں ، ہیر کا مسودہ جسے وہ مکمل کر رہے تھے اور دوسری کتابیں جل کر راکھہ ہو گئیں تو انہوں نے دل برداشتہ ہو کر اپنا کلام کاغذ پر محفوظ کر نا چھو ڑدیا اور صرف اپنے حافظے پر بھر وسہ کر نے لگے ۔ اس وجہ سے ان کا کافی کلام ضائع ہو گیا لیکن ان کی یاد میں قائم ہو نے والی استاد دامن اکیڈمی کے عہد یداروں نے بڑی محبت وکاوش سے ان کے مختلف ذہنوں میں محفوظ اور ادھر ادھر بکھر ے ہو ئے کلام کو یکجا کر کے’’ دامن دے موتی‘‘ کے نام سے ایک کتاب ہمارے سامنے پیش کی۔
استاد دامن نے فلموں کیلئے بھی گیت لکھے ۔ ان کا فلم’’ غیرت دا نشان ‘‘ میں شامل یہ گیت بہت مشہور ہوا۔
منیو ں دھرتی قلعی کرا دے میں نچاں ساری رات
نہ میں سونے دی نہ چاندی دی میں پتل بھری پرات
استاد دامن ، پنجابی کے علاوہ اردو سنسکر ت ، ہندی اور انگریزی زبانوں پر بھی دسترس رکھتے تھے لیکن انہوں نے وسیلہ اظہار اپنی ماں بولی زبان پنجابی ہی کو بنایا ۔ استاد دامن بلھے شاہ اکیڈمی کے سرپرست، مجلس شاہ حسین کے سرپرست اور ریڈیو پاکستان شعبہ پنجابی کے مشیر بھی تھے ۔ ان مختلف حیثیتوں میں انہوں نے پنجابی زبان وادب کی ناقابل فر امو ش خدمات سر انجام دیں ۔
استاد دامن کہا کرتے تھے کہ اگر کسی نے میرا اردو ایڈیشن دیکھنا ہو تو وہ حبیب جالب کو دیکھہ لے۔ استاد دامن کو فیض اور جالب سے محبت تھی۔ 80 کی دہائی میں جب انکے منہ بولے بیٹے فلم سٹارعلائوالدین کا انتقال ہوا تو گویا استاد دامن کی کمر ٹوٹ گئی۔ بستر پر ہی پڑے رہتے ،کبھی ہسپتال اور کبھی گھر، پھر تھوڑے ہی عرصے کے بعد فیض صاحب بھی خالق حقیقی سے جاملے۔ استاد سے محبت کرنے والوں نے لاکھہ روکا، وہ نہ مانے اور اپنے یار دیرینہ کے جنازے پر پہنچ گئے۔ لوگوں نے استاد دامن کو پہلی بار دھاڑیں مارتے ہوئے دیکھا۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ گویا تقسیم سے لے کر آج تک ٹوٹنے والی ساری قیامتوں کی اذیت فیض صاحب کے جانے کے بعد ہی ان تک آئی ہے۔ فیص صاحب کا انتقال 20 نومبر 1984ء کو ہوا اور اسی شام دامن کی ہمت بھی جواب دے گئی۔ایسے ٹوٹے کے صرف تیرہ دن کے وقفے کے بعد فیض صاحب کے قدموں کے نشان چنتے چنتے راہیٔ ملک عدم ہو گئے۔
عوام سے پیار کرنے والا یہ عوامی شاعر 3 دسمبر 1984 کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا ۔ انہیں ان کی وصیت کے مطابق شاہ حسین کےمزار کے احاطے میں واقع قبرستان میں دفن کیا گیا ۔
استاد دامن کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد دامن دے موتی کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
ایہہ کیہ کری جانا
ایہہ کیہ کری جانا
کدی چین جانا کدی روس جانا
بن کے توں امریکی جاسوس جانا
کدی شملے جانا، کدی مری جانا
ایہہ کیہ کری جانا
ایہہ کیہ کری جانا
جدھر جانا ایں، بن کے جلوس جانا
دھسا دھس جانا دھسا دھوس جانا
اڑائی قوم دا توں فلوس جانا
لائی کھیس جانا، کھچی دری جانا
ایہہ کیہ کری جانا
ایہہ کیہ کری جانا
نوٹ = اس نظم پر استاد دامن کو بم کیس میں گرفتار کیا گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرہ عدالت میں ہجوم تھا دانشوروں کا وکلاء کا ادیبوں کا شاعروں کا استاد کے مداحوں کا- مجسٹریٹ پریشان بار بار ریٹائرنگ روم میں جاتا اور صورت حال گورنر کو بتاتا گورنر کی ایک ہی رٹ تھی ضمانت نہیں ہو گی اس نے صاحب بہادر کی شان میں گستاخ شعر کہے ہیں بھلا یہ شاعری ہے وکیل کہہ رہے تھے می لارڈ استاد دامن جس حجرے میں رہتے ہیں وہ اتنا چھوٹا ہے کہ اس پر بم کیس ہی نہیں بنایا جا سکتا تھا- عدالت میں اکبر لاہوری مرحوم نے کہا تھا- تاریخ میں یہ محفوظ ہو جانا ہے کس وقت کس حکومت نے کس بندے کے ساتھ کس عدالت نے کیا فیصلہ کیا-
مجسٹریٹ نے استاد دامن سے پوچھا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں-
استاد دامن نے کہا جس نے کٹہرے میں آج مجھے ملزم بنا کر کھڑا کیا ہے کل وہ مجرم بن کر اسی کٹہرے میں کھڑا ہوگا-
بحوالہ: استاد دامن شاعری تے شخصیت (کنول مشتاق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ جناح تے ایوب خان — 1964 دے الیکشن
۔۔۔۔۔۔۔۔
پتہ لگے گا ساریاں پتراں دا بول بولیاں دا کیہڑا بھاء پاوندا
کون چٹے جھاٹے دی لاج رکھدا اے کون ماں دے سر سواہ پاوندا
کل نوں ایہہ نہ کہن جہان والے پتر ایہہ کاہدے اپنی ماں کھا گئے
ایہنا کولوں بچا لو بچیاں نوں ککر کھان والے سارے کاں کھا گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں نال مقابلہ پتراں دا
پتر اسیں وی آں پر اپنی ماں ول آں
ساہنوں صدر دے سائے دی لوڑ کوئی نہیں
اسیں ٹھنڈی بہشتاں دی چھاں ول آں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جے موئیاں ہے ماں دے نال اٹھنا
جیوندے کیوں نہ ماں دے نال رہیے
سانجھی ماں اے دیس دے پتراں دی
ایہدے باغیاں نال نہ کیوں کھیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسیں اوس مکان دے رہن والے
جتھے زور دن رات ہے جالیاں دا
حق دار نوں حق نہ ملن دھکے
کم کاج ہندا ساکاں سالیاں دا
خطرہ دیس وچ لُٹ دا ہر ویلے
صنعت کار وڈا ایتھے تالیاں دا
جھگے ڈھاوندے ماڑیاں وستیاں دا
رخ بدل کے دریا تے نالیاں دا
ددھ پی کے وی ایتھے ڈنگ مارن
کیہہ لابھ ہے سپاں نوں پالیاں دا
وہاڑھ کھیت نوں کھان لگ گئی
کالا مونہہ ہے ایہناں رکھوالیاں دا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوم دے غدارو! تے پکارو تے ککارو ہن
گئے ہوئے فرنگیاں نوں، مڑ کے ہن بلائی جاؤ
قوماں دیاں قوماں تسی، ٹوٹے ٹوٹے کیتیاں
بندہ بندہ، ٹوٹے ٹوٹے، ہندا تے کرائی جاؤ
کھائی جاؤ، کھائی جاؤ، بھیت کنھے کھولنے؟
وچو وچ کھائی جاؤ، اتوں رولا پائی جاؤ
بھکھاں کولوں آ کے تنگ، لوکاں بانگاں دتیاں
قورمہ پلاؤ رج گھراں چے اڈائی جاؤ
چارے پاسے قوراں نیں، مٹی اڈی جاپدی
پکھی واس پیدا کرو، کوٹھیاں بنائی جاؤ
چاچا دیوے بھتیجے نوں، بھتیجا دیوے چاچے نوں
آپو وچ ونڈی جاؤ تے آپو وچ کھائی جاؤ
انھاں مارے انھی نوں، گھسن وجے تھمی نوں
جنی تہا توں انھی پیندی، اونی انھی پائی جاؤ
مری دیاں چوٹیاں تے چھٹیاں گزار کے
غریباں نوں کشمیر والی، سڑکوں سڑکی پائی جاؤ
ڈھڈ بھرو اپنے، تے ایہناں دی کیہہ لوڑ اے؟
بھکھیاں نوں لمیاں کہانیاں سنائی جاؤ
"بند جے شراب کیتی" وارے جائیے بندشاں دے
گھرو گھری پیٹیاں تے پیٹیاں پچائی جاؤ
تولہ ماسہ رول کے غریباں دی کمائی وچو
امریکہ کولوں کاراں اتے کاراں منگوائی جاؤ
کھائی جاؤ، کھائی جاؤ، بھیت کنھے کھولنے
وچو وچی کھائی جاؤ، اتوں رولا پائی جاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانوں کوئی شکست نئیں دے سکدا
بھانویں کوئی کڈا دم خم نکلے
استاد دامن دے گھر ویکھیا جے
دو ریوالور تے تِن دستی بم نکلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اری سرسری نظر جہان اُتے
تے ورق زندگی دا تھلیا میں
دامن رفیق نہ ملیا جہان اندر ۔ ۔
ماری کفن دی بُکل تے چلیا میں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھاویں مونہوں نہ کہیے پر وچوں وچی
کھوئے تسی وی او، کھوئے اسی وی آں
ایہناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا
ہوئے تسی وی او ،ہوئے اسی وی آں
کجھ امید اے زندگی مل جائے گی
موئے تسی وی او، موئے اسی وی آں
جیوندی جاں ای، موت دے منہ اندر
ڈھوئے تسی وی او، ڈھوئے اسی وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسی وی آں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ینوں پاگل پن درکار
مَینوں پاگل پن درکار
لکھاں بھیس وَٹا کے ویکھے
آسن کِتے جما کے ویکھے
متھے تِلک لگا کے ویکھے
کدھرے مون مَنا کے ویکھے
اوہو ای رستے، اوہو ای پَینڈے
اوہو ای آں میں چلّن ہار
مَینوں پاگل پن درکار
ہتھ کسے دے آؤ نا کیہ اے؟
ملاں نیں جتلاؤ نا کیہ اے؟
پنڈت پلّے پاؤ نا کیہ اے؟
رات دنے بس گلاں کر کر
کجھ نہیں بن دا آخر کار
مَینوں پاگل پن درکار
میں نہیں سکھیا علم ریاضی
ناں میں پنڈت، ملاں، قاضی
نہ میں دانی، نہ فیاضی
نہ میں جھگڑے کر کر راضی
نہ میں منشی، عالم فاضل
نہ میں رند تے نہ ہشیار
مَینوں پاگل پن درکار
میں نہیں کھاندا ڈَکّو ڈولے
رتھ جیون نُوں لا ہچکولے
اینویں لبھدا پھراں وچولے
کوئی بولے تے کوئی نہ بولے
ملے گلے دا آدر کر کے
کرناں اپنا آپ سدھار
مَینوں پاگل پن درکار
سب دسدے نیں ون سوَنے
کول جاؤ تے خالی چھنّے
دل نہ منے، تے کیہ منے
اینویں من منوتی کاہدی
گل نہ ہندی ہنے بنے
اندر کھوٹ تے باہر سچیار
مَینوں پاگل پن درکار
ایہہ دنیا کیہ رولا گولا
کوئی کہندا اے مولا مولا
کوئی کردا اے ٹال مٹولا
کوئی پاؤندا اے چال مچولا
مینوں کجھ پتہ نہیں چلدا
کیہ ہندا اے وچ سنسار
مَینوں پاگل پن درکار
ولی، پیر میں پگڑ پگڑ کے
گٹے گوڈے رگڑ رگڑ کے
دل نوں ہن تے جکڑ جکڑ کے
اینویں جھگڑے جھگڑ جھگڑ کے
چھڈ دتے نیں جھگڑے جھانجے
لمے چوڑے کھل کھلار
مَینوں پاگل پن درکار
ربا، مَینوں پاگل پن درکار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاندی سونے تے ہیرے دی کان تے ٹیکس
عقل مند تے ٹیکس نادان تے ٹیکس
مکان تے ٹیکس دوکان تے ٹیکس
ڈیوڑھی تے ٹیکس لان تے ٹیکس
پانی پین تے ٹیکس روٹی کھان تے ٹیکس
آئے گئے مسافر مہمان تے ٹیکس
انجیل تے ٹیکس قران تے ٹیکس
لگ جائے نہ دین ایمان تے ٹیکس
ایسے واسطے بولدا نہیں دامن!
متاں لگ جائے میری زبان تے ٹیکس
آپ استاد دامن کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔
“