(Last Updated On: )
آج پھر اندر بہت سکون ہے
ایک طویل گہری خاموشی ہے
ہر طرف سکوت طاری ہو جیسے
جس کے سائے میں مگر
خاموش شور اٹھ رہا ہے
دھڑکنیں بے ترتیب ہوئے جا رہی ہیں
کسی بہت بڑے طوفان کا
پیش خیمہ ہو جیسے
جسے روکا نہ جا سکتا ہو
جسے ٹالا نہ جا سکتا ہو
کاش یہ طوفان آئے اور
سب کچھ بہا لے جائے
ماضی کی کوئی یاد،
کوئی رنجش،
کوئی گلہ، کوئی شکوہ
کچھ نہ بچے
سب کچھ بہا لیا جائے
اور پھر نئے سرے سے
زندگی کا آغاز ہونا چاہیے
ایک جیون سے بھرپور زندگی
ان بے ترتیب سوچوں کے حصار میں
میرے جسم کی ساری ہڈیاں
صبر کی ٹھنڈی آگ میں
پھر سے جلنے ہیں
اور میں آنکھیں موندے
وہیں ڈھیر ہو گئی