پاکستان کے شہرہ آفاق مصور،شاعر، خطاط اور نقاش صادقین کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ مصوری کے علاوہ انھوں نے غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام اور آیات ِ قرآنی کو بھی خطاطی کے قالب میں ڈھالا۔ اُن کا فن، ماورائے عصر تھا اور ہمیشہ رہے گا۔صادقین کے ذہن میں تخلیق کا آبشار بہتا تھا۔ ان کی خطاطی و مصوری کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد، فریئر ہال کراچی، نیشنل میوزیم، صادقین آرٹ گیلری اور دنیا کے ممتاز عجائب گھروں میں موجود ہیں۔ صادقین نے مصوری کے منفرد نمونے پیش کر کے جہاں انھیں تخلیقی شاہکار بنا دیا ،وہیں رباعیات کہنے میں بھی ان کو کمال حاصل تھا اور دوسرے شعرا کی طرح انھوں نے صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہی رباعیات نہیں کہیں بلکہ اسے فن کے طور پر لیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات میں بے ساختہ پن ہے:
ایک بار میں ساحری بھی کر کے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کر کے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوری بھی کر کے دیکھوں
پاکستان میں صادقین کی پہلی تصویری نمائش 1954ء میں منعقد ہوئی۔ بعد ازاں یورپ بالخصوص فرانس میں ان کے فن پاروں کو زبردست پذیرائی ملی۔ مارچ 1970ء میں انھیں تمغۂ امتیاز اور 1985ء میں ستارہ ٔامتیاز سے نوازا گیا۔
صادقین کی پیدائش امروہہ میں 20 جون 1930ء میں ہوئی تھی۔ چونکہ ان کے والد خطاط تھے، اس لیے انھوں نے بھی اسی فن کو اپنایا حالانکہ اس وقت ہی ان کو شعر و شاعری کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا تھا، جس کا اظہار وہ ایک رباعی میں خود ہی کرتے ہیں:
شب میری تھی، رات میری، دن تھا میرا
آیا ہوا خود مجھ پہ ہی جن تھا میرا
کتنی ہی رباعیاں تھیں لکھ کر پھاڑیں
اٹھارہ برس کا جب کہ سن تھا میرا
صادقین کو اس بات پر بھی فخر تھا کہ دنیا میں ان کا کوئی ہم نام نہیں :
گر اپنی ثنا عام نہیں دنیا میں
پھر تو مجھے کچھ کام نہیں دنیا میں
یکتائی کا دعویٰ فقط اس بات پہ ہے
کوئی میرا ہم نام نہیں دنیا میں
صادقین کی رباعیوں میں رومان کی ایک لہر بھی کروٹ لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، لیکن ان کی تصاویر اور ان کے تصورِ فن کی طرح اُن کا یہ رومان بھی دوسروں سے جداگانہ ہے :
کھلتی ہوئی کلیاں ہیں، چمن کی تیرے
رنگیں سی روشنی ہے، تن کی تیرے
خلوت کی ہر اک شے پہ ہے ہلکی ہلکی
چھٹکی ہوئی چاندنی، بدن کی تیرے
الغرض دنیا بھر میں صادقین کے فن کی دھوم مچی، پاکستان میں تو مختلف مقامات پر اُن کے خطاطی کے نمونے نظر آتے ہی ہیں۔ ہندوستان میں بھی دہلی کے اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس، حیدرآباد اور کئی شہروں میں صادقین کی مصوری کے نمونے لوگوں کی نظروں کو اپنی جانب بے محابہ کھینچ لیتے ہیں۔ پاکستان میں جہاں انہیں اعزازات سے نوازا گیا ، وہیں ہندوستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس میں ہندو یونیورسٹی نے بھی انہیں اعزاز بخشا تھا، لیکن صادقین کی طبیعت قلندرانہ تھی اس لیے وہ کسی منزل پر رکتے نہیں تھے۔ حالانکہ ان کی خطاطی پر جو تنقید ہوئی، اس سے بھی وہ کسی قدر بدحظ نظر آتے ہیں، جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:
جو نقش تھے پامال بنائے میں نے
پھر الجھے ہوئے بال بنائے میں نے
تخلیق کے کرب کی جو کھینچی تصویر
پھر اپنے خد و خال بنائے میں نے
صادقین اپنے آرٹ میں سرتاپا ڈوبے رہے اور 10 فروری 1987ء کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ٭…٭…٭ –
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں صادقین کی کچھ رباعیات، جن میں آپ کو مصوری کے شاہکار محسوس ہوسکتے ہیں، جس طرح ان کی شاہکار تصویروں شعر کہتی محسوس ہوتی ہیں۔
ایک بار میں ساحری بھی کرکے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کرکے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوری بھی کرکے دیکھوں
***
میں بغض کے انبار سے کیا لاتا ہوں
اس میں بھی عقیدت کی ادا لاتا ہوں
جو زہر کہ واعظ نے ہے اُگلا اُس سے
تریاق نکالے ہی چلا جاتا ہوں
***
خود اپنے طریقے میں قلندر میں ہوں
خود اپنے سلیقے میں ہنر ور میں ہوں
خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں
خود گیر ہوں خودنگر ہوں خودگر ہوں میں
***
ہر نقش میں تھا جلوۂ ایماں ساقی
آ کر ہوئے مایوس و پریشاں ساقی
کل میری نمائش میں بڑے مولوی آئے
یہ سُن کے کہ تصویریں ہیں عریاں ساقی
***
عاشق کیلیے رنج و الم رکھے ہیں
شاہوں کیلیے تاج و علم رکھے ہیں
میرے لیے کیا چیز ہے؟ میں نے پوچھا
آئی یہ صدا لوح و قلم رکھے ہیں
***
یہ تو نہیں قدرت کا اشارہ نہ ہوا
میں پھر چلا سوئے کفر، یارا نہ ہوا
اسلام سے بندے کا مشرّف ہونا
اسلام کے مفتی کو گوارا نہ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود