آج پاکستان کے نامور اردو نقاد ، مترجم، معلم و افسانہ نگار محمد حسن عسکری کا یوم وفات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے ہی انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ اس یونیورسٹی میں انہوں نے فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا اور بعدازاں خود بھی تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔
محمد حسن عسکری نے بطور ادیب اپنے کیریئر کا آغاز ماہنامہ ساقی دہلی سے کیا تھا۔ اس رسالے میں شائع ہونے والی عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ایک ترجمہ تھا جو نومبر 1939ء میں شائع ہوا۔ اس مضمون کا عنوان تھا ’’محبوبہ ٔ آمون را‘‘ اس کے بعد 1941ء اور 1942ء میں بالترتیب کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شائع ہوئے۔
1943ء میں فراق گورکھپوری نے ساقی میں ’’باتیں‘‘ کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ جب فراق صاحب اس کالم سے دست کش ہوگئے تو دسمبر 1943ء سے یہ کالم عسکری صاحب لکھنے لگے، جنوری 1944ء میں اس کالم کا عنوان جھلکیاں رکھ دیا گیا۔ یہ کالم 1947ء کے فسادات کے تعطل کے علاوہ کم و بیش پابندی سے نومبر 1957ء تک چھپتا رہا۔
قیام پاکستان کے بعد عسکری صاحب نے کچھ عرصہ لاہور میں گزارا۔ پھر وہ کراچی چلے آئے جہاں انہوں نے ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے شعبہ سے وابستگی اختیار کی اور اپنی وفات تک اسی شعبے سے وابستہ رہے۔
عسکری صاحب اردو کے ایک اہم افسانہ نگار تھے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شائع ہوا۔ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ ان کی زندگی میں اور ’’جھلکیاں‘‘ ، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ فرانسیسی ادب سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے جس کا ثبوت ان تراجم سے ملتا ہے جو انہوں نے بوولیئر اور ازستاں دال کے ناولوں ’’مادام بواری‘‘ اور ’’سرخ وسیاہ‘‘ کے نام سے کئے ہیں۔ آخری دنوں میں عسکری صاحب مفتی محمد شفیع کی قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی میں ترجمہ کررہے تھے جن میں سے ایک جلد ہی مکمل ہوسکی۔ محمد حسن عسکری کراچی میں دارالعلوم کورنگی میں آسودۂ خاک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلسمِ ہوشربا کا ایک شاندار انتخاب
انتخاب: محمد حسن عسکری
تبصرہ نگار : انور سن رائے
طلسمِ ہوشربا کے اس انتخاب میں اگر عزیز احمد کا مقدمہ اور محمد حسن عسکری کا دیباچہ نہ ہوتا، اور انتحاب کے پہلی بار شائع ہونے کے ذکر کی طرح انھیں بھی غیر ضروری سمجھا لیا جاتا تو معاملہ بہت آسان ہو جاتا۔ پھر یہی بتانا پڑتا کہ اس انتخاب میں جو رکھا گیا ہے وہ کیسا ہے، اس میں کیا ہے اور اسے کیوں پڑھا جائے۔
انیسویں صدی کے آخری حصے میں لکھی جانے والی اس داستان کے مصنفین اور شائع کرنے والوں کو اگر سات جلدوں کے بعد دو جلدوں کے ضمیمے کی بھی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ اس کہ اہل نہیں تھے۔
ان نو میں سے پہلی چار جلدیں محمد حسین جاہ نے اور باقی احمد حسین قمر نے، اور انھیں نہ اہل کہنے والا کم سے کم ایسا ہونا چاہیے کہ اس نے معیار یا مقدار میں کم سے کم اتنا کام کیا ہو۔ معاملہ مقدار کی کمی کا ہے، یعنی چھٹائی کر کے وہ مال نکال لیا ہے جو انتخاب کرنے والے کے مقاصد کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ معاملہ ہر انتخاب میں پیش آتا ہے۔ انتخاب کرنے والا پہلے مقاصد طے کرتا ہے اور پھر جو اس پر پورا نہیں اترتا اُسے الگ کرتا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انتخاب اور تدوین کو ایک کر کے دیکھا جائے۔
اگرچہ تدوین میں بھی پہلے روح کا تعین کر لیا جاتا ہے اور پھر جو زیادہ ہوتا ہے اسے الگ کر دیا جاتا ہے جیسے پتھر سے مجسمہ تراشا جاتا ہے یا لکڑی سے کوئی شکل نکالی جاتی ہے لیکن زبان کے ذریعے بیان ہونے کا معاملہ شاید ایسا نہیں۔ اس میں وہ باتیں بھی آ جاتی ہیں جو بظاہر بیان کرنے والے کو، بیان کرتے وقت محسوس نہیں ہوتیں۔ اس بات کو جدید تنقید کے ذریعے بھی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور اس بات سے بھی جسے عسکری نے چیزوں اور نثر کے رشتے سے بیان کیا ہے۔
میں نے نہ تو طلسم ہوشربا پوری پڑھی ہے اور نہ ہی اس تبصرے کو کبھی پورا پڑھنے تک موقوف رکھ سکتا ہوں۔ اس لیے میں یہ نہیں بتا سکتا کہ جو چھوڑ دیا گیا ہے اس میں کیا کیا چھٹ گیا ہے اور وہ کتنا ضروری تھی یا نہیں تھا۔
لیکن اردو میں عسکری نے جو ساکھ بنائی ہے یا دھاک بٹھائی ہے، وہ نہ بھی ہوتی تو انھوں نے دیباچے میں جو کچھ کہا ہے اس کی بنا پر بھی یہ انتخاب فکشن لکھنے والوں کے لیے ہی نہیں اردو پڑھنے والے سبھی لوگوں کے ضرور اہم قرار پاتا۔ یہ دیباچہ انھوں نے سنہ 1950 میں لکھا تھا تو ایک اندازہ تو یہی ہوتا ہے کہ یہ انتخاب پہلی بار اسی سال یا اس سے اگلے سال یعنی سنہ 1951 میں چھپا ہوگا۔
عسکری نے ایک تو جاہ اور قمر کی نثر اور انداز میں فرق قائم کیا ہے۔ پہلے وہ بتاتے ہیں کہ رجب علی بیگ سرورکے ہاں نثر چیزوں کو تصورات میں بدل دیتی ہے اور میرامن کی نثر میں چیزیں ایک دوسرے سے الگ اور اپنی روشنی سے منور دکھائی دیتی ہیں۔
پھر یہ بیان ہے کہ طلسم ہوشربا کی نثر چیزوں کو تصورات میں نہیں بدلنا چاہتی، اس نثر کو شاید چیزوں کی روح سے وہ ہم آہنگی حاصل نہیں، اس کے برخلاف وہ ہر چیز میں الگ الگ اور زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔
ان کا کہنا ہے، 1۔ یہ نثر ہر چیز میں اس کا چٹ پٹا پن تلاش کرتی ہے۔ 2۔ یہ نثر چیزوں کی پیاسی ہے اور ان سے لذت لینے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
اس دیباچے میں آج کے فکشن کو دیکھنے اور اس پر بات کرنے کی لیے اتنی باتیں ہیں کہ اگر کھل گئیں تو یہاں سمٹ نہیں پائیں گی۔ اس لیے وہ سن لیں جو عسکری نے اس انتخاب کو کرتے ہوئے پیش نظر رکھیں یا جنھیں بروئے کار لائے۔
1۔ ہر انتخاب (ٹکڑا) اپنی جگہ پورا قصہ ہو۔
2۔ طلسمِ ہوشربا میں جو مختلف اسالیب ملتے ہیں ان کے تمام نمونوں کی نمائندگی ہو۔
3۔ گنجلک نثر بھی ہے لیکن اسے کانٹ چھانٹ کر مختصر کر دیا ہے۔
4۔ طلسم ہوشربا کو میں نے ایک عام ادب پڑھنے والے یا ایک ایسے آدمی کی طرح پڑھا ہے جس نے افسانے لکھے اور مختلف اقسام کی نثر نگاری اور اس کی ضرورتوں کو سمجھنے کو کوشش کی۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ کتاب ہماری قوم کی وہ تصویر دکھاتی ہے جو قوم نے ایک زمانے میں اپنے ذہن میں قائم کر رکھی تھی‘۔