ڈاکٹر اسلم فرخی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور اردو نقاد ، محقق، شاعر، سابق پروفیسر و چیئرمین شعبۂ اردو اور سابق رجسٹرار کراچی یونیورسٹی تھے۔
ڈاکٹر اسلم فرخی 23 اکتوبر 1923ء کو لکھنؤ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا سابق وطن فتح گڑھ، ضلع فرخ آباد تھا۔ انہوں نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو صدیوں سے علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ ان کے خاندان کے ہر شخص کو شعر و سخن سے لگاؤ رہا ہے۔ ان کے دادا، والد، پھوپھی زاد بھائی اور یہاں تک کہ ان کی بہنیں بھی شعر کہا کرتی تھیں۔ اس کے بعد ان کا ننھیال بھی اشاعتی کاموں میں مشغول تھا لہٰذا وہاں بھی ادبی ماحول تھا۔ ایسے ادبی ماحول کا اثر اسلم فرخی پر پڑنا فطری تھا یا یہ کہیے کہ ذوقِ سخن ان کو خاندانی ورثے میں ملا۔
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ درس و تدریس سے منسلک ہو گئے۔ فرخی صاحب نے سندھ مسلم کالج کراچی، سینٹرل گورنمنٹ کالج کراچی اور کراچی یونیورسٹی میں طالب علموں کو اردو پڑھائی۔
کراچی یونیورسٹی میں وہ ناظم شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے اس کے علاوہ کراچی یونیورسٹی میں رجسٹرارکے طور پر بھی کام کیا۔ انہوں نے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے متعدد مقالوں کی نگرانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ زبان و ادب کے استاد اور معلم کی حیثیت سے ان کا بلند مرتبہ تھا اور استاد الاساتذہ کی حیثیت کے حامل تھے۔
ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کا شمار ملک کے ممتاز دانشوروں میں ہوتا تھا۔ وہ استاد، شاعر، صاحب طرز نثر نگار، محقق، نقاد، بچوں کے ادیب اور ممتاز براڈ کاسٹر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے براڈ کاسٹر کی حیثیت سے بھی بڑی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر صاحب ریڈیو پاکستان کراچی سے بہ حیثیت مسودہ نگار چھ سال منسلک رہے ہیں۔ اسلم فرخی صاحب نے ریڈیو کے لیے فیچر، ڈرامے اور تقریریں لکھیں، جو گزشتہ پچاس برس سے ملک میں مقبول ہیں۔
انہوں نے ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔ انہوں نے غزلیں اور نظمیں بھی لکھیں لیکن پھر بھی اپنے آپ کو شاعر نہیں کہتے۔ وہ کہتے تھے کہ نہ شاعری میری شناخت بنی اور نہ تحقیق۔ میری پہچان خاکہ نگاری کے علاوہ وہ کام ہے جو میں نے حضرت سلطان المشائخ کے حوالے سے کیا ہے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کا اصل حوالہ، جیسا کہ وہ کہتے ہیں، حضرت نظام الدین اولیا محبوب الہٰی ہیں جن کے بارے میں انہوں نے چھ کتابیں لکھیں۔ فرخی صاحب اولیائے کرام سے غیر معمولی عقیدت رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے چھوٹی چھوٹی کتابوں کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے بھی لاتعداد کتابیں لکھیں۔
حکومت پاکستان نے ڈاکٹر اسلم فرخی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوزا۔
ڈاکٹر اسلم فرخی 15 جون 2016ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصانیف
محمدحسین آزاد۔ حیات و تصانیف
تذکرہ گلشن ہمیشہ بہار( تدوین)
چاند بی بی سلطانہ زوجہ وزیر حسن
قتیل و غالب ( اسد علی انوری)
اردو کی پہلی کتاب ( آزاد کی درسی کتابیں)
نیرنگ خیال (محمد حسین آزاد)
قصص ہند (محمد حسین آزاد)
ادعیتہ القرآن (ڈپٹی نذیر احمد)
نظام رنگ (حضرت سلطان جی کا خاکہ)
گل دستہ احباب (خاکے)
آنگن میں ستارے (خاکے)
لال سبز کبوتروں کی چھتری(خاکے )
فرید و فرد فرید (بابا فرید)
دبستان نظام ( نظام الدین اولیا)
بچوں کے سلطان جی
بچوں کے رنگا رنگ امیر خسرو
بچوں کے مرزا غالب
فرمایا سلطان جی نے
بزم ِ شاہد (شاہد احمد دہلوی کی تحریریں) تدوین و ترتیب
رونق بزمِ جہاں (خاکے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی ایک غزل درج ذیل ہے جس سے بحیثیت شاعر ان کی ادبی حیثیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے:
آگ سی لگ رہی ہے سینے میں
اب مزا کچھ نہیں ہے جینے میں
آخری کشمکش ہے یہ شاید
موج دریا میں اور سفینے میں
زندگی یوں گزر گئی جیسے
لڑکھڑاتا ہو کوئی زینے میں
دل کا احوال پو چھتے کیا ہو
خاک اڑتی ہے آبگینے میں
کتنے ساون گزر گئے لیکن
کوئی آیا نہ اس مہینے میں
سارے دل ایک سے نہیں ہوتے
فرق ہے کنکر اور نگینے میں
زندگی کی سعادتیں اسلم
مل گئیں سب مجھے مدینے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش : نیرہ نور خالد