12 مئی 1917
پاکستان کے نامور فلسفی، دانشور اور روزنامہ جنگ کراچی کے سابق مدیر سید محمد تقی شاہ کا یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید محمد تقی پاکستان کے ممتاز فلسفی، دانشور، شاعر اور صحافی تھے۔ 12 مئی 1917ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا گھرانہ بشمول والد علامہ شفیق حسن، بڑے بھائی رئیس امروہوی اور چھوٹے بھائی جون ایلیا اردو ادب کی آبرو خیال کئے جاتے ہیں۔
آپ کا انتقال 25 جون 1999ء کو کراچی میں ہوا۔
نہایت وسیع العلم باپ، علامہ شفیق حسن ایلیا کے صاحبزادے، رئیس امروہوی کے تین سال چھوٹے بھائی، جون ایلیا سے چودہ سال بڑے بھائی، کمال امروہوی کے چچازاد بھائی، سید محمد تقی 1917ء میں پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے سال امروہہ میں پیدا ہوئے۔ سیاسی ماحول میں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا زمانہ تھا۔ امروہہ کے نہایت اعلیٰ علمی ادبی ماحول میں پرورش ہوئی۔ بچپن سے عنفوان شباب تک کھلنڈرے رہے کہ علم و ادب سے شغف پیدا نہیں ہوا تھا اور کمال امروہوی، رئیس امروہوی اور محلے کے دیگر شرارتی لڑکوں کی صحبت میں رہے لیکن علامہ شفیق حسن ایلیا جیسے گھنے اعلیٰ علمی و ادبی درخت کے سائے میں کیسے ممکن تھا کہ علم و ادب سے بچتے۔ جب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا تو علم و ادب کے مشرقی امتحانات بہت تیزی سے پاس کر لئے۔ چنانچہ اکیس سال کی عمر تک الہ آباد بورڈ کے ادیب، ادیب عالم، ادیب کامل، منشی فاضل، مولوی فاضل، مولوی کامل اور پھر پنجاب بورڈ کا فاضل ادب پاس کر لئے۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ انگریزی کے بغیر آگے بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ دہلی یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی زبان و ادب میں مکمل کرلیا۔
اب ملازمت کے میدان میں داخل ہونے کا وقت آیا تو رئیس امروہوی سے مشورہ کیا۔ رئیس صاحب ان دنوں مرادآباد میں عادل صاحب (شکیل عادل زادہ کے والد) کے رسالے ”مسافر“ کے ایڈیٹر تھے۔ دونوں بھائی دہلی آگئے۔ دہلی میں اولاً تو رسالوں میں مضامین لکھتے رہے، غیر معروف رسالوں کے ایڈیٹر بھی رہے لیکن ساری زندگی کی پیشہ ورانہ مصروفیت اس وقت شروع ہوئی جب میر خلیل الرحمان نے دونوں بھائیوں کو اپنے نوزائیدہ روزنامہ ”جنگ“ میں ساتھ لے لیا۔ رئیس صاحب اداریئے لکھتے تھے اور تقی صاحب نیوز ایڈیٹر تھے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے فوراً بعد کے پرآشوب زمانے میں میر خلیل الرحمان رئیس امروہوی صاحب کو ساتھ لے کر کراچی آگئے۔ تقی صاحب پھر 26 جنوری 1948ء کو بمبئی کے راستے پانی کے جہاز سے کراچی آئے۔ وہ اپنی بیگم اور چار سال کی بیٹی کے ساتھ اسی دن بمبئی سے سوار ہوئے جب گاندھی جی کے قتل کے نتیجے میں غلط فہمی کے تحت مسلم کش فسادات شروع ہوگئے تھے۔
1950ء کی دہائی کے اوائل میں تقی صاحب نے عام لوگوں میں فلسفے کا شوق پیدا کرنے کی غرض سے ہر ہفتے ایک مضمون فلسفے کے موضوعات پر شائع کرنا شروع کردیئے۔ اتنے مشاق صحافی کے لئے جاذب توجہ سرخیاں لگانا روزمرہ کا معمول تھا۔ مثلاً انگلستان کے فلسفی برکلے پر اپنے مضمون کی یہ سرخی لگائی تھی۔ ”کتے، میزیں اور پردے“۔ اس انداز کے آسان فہم اردو میں لکھے ہوئے مضامین مقبول ہوئے۔ 1958ء میں ان کے ایسے ہی مضامین یکجا کر کے اردو اکیڈمی سندھ نے ان کی پہلی کتاب ”روح اور فلسفہ“ شائع کی۔ اب تقی صاحب کا نام معتبر فلسفیوں میں شامل ہوا تو ڈاکٹر شریف، جو گورنمنٹ کالج میں شعبہ فلسفہ کے صدر تھے سالانہ پاکستان نیشنل فلسفہ کانفرنس میں ہر سال تقی صاحب کو بلاتے اور تقی صاحب نے کئی مقالے ان کانفرنسوں میں پڑھے۔ 1958ء میں تقی صاحب اور دیگر کئی عامل صحافیوں کو برطانیہ کی حکومت نے دورے پر بلایا۔ وہاں تقی صاحب نے برٹرینڈرسل سے ملاقات بھی کی۔ دو سال بعد تقی صاحب کو روم میں ہونے والی بین الاقوامی کانگریس میں مقالہ پیش کرنے بلایا گیا، ساتھ ہی انہیں روم کی تاریخی عمارت اور نہروں والے تاریخی شہر وینس کی تفریح کرائی گئی۔ تقی صاحب واپس آئے تو اپنا سفرنامہ اخبار میں کئی قسطوں میں شائع کیا۔
اس دوران ”جنگ“ میں ان کے فلسفیانہ مضامین شائع ہوتے رہے، ساتھ ہی بعض طبعزاد اور بعض اپنے ہی اردو مضامین کے ترجمے روزنامہ ”ڈان“ میں احمد علی خان صاحب شائع کرتے رہے۔ وہ تقی صاحب کے جوانی کے دوست تھے۔ انہی دنوں تقی صاحب مصر کے سرکاری دورے پر جارہے تھے تو مولوی عبدالحق نے ان سے کہا کہ وہ وہاں سے یہ معلوم کر آئیں کہ کارل مارکس کی شہرہ آفاق اور تاریخ ساز کتاب ”داس کیپٹل“ کا ترجمہ عربی میں ہوا ہے یا نہیں۔ تقی صاحب مصر سے لوٹے تو انہوں نے مولوی صاحب کو بتایا کہ عربی میں ترجمہ نہیں ہوا ہے۔ مولوی صاحب نے اسی وقت اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنے کا کام تقی صاحب ہی کے ذمے کردیا جو انجمن ترقی اردو نے 1961ء میں شائع کیا۔ اس کی اشاعت کے پچیس سال بعد جب انجمن کا کاپی رائٹ ختم ہوگیا تو تین سال پہلے 2004ء میں دارالشعور نے بہت دیدہ زیب انداز میں یہ ترجمہ شائع کیا۔ کارل مارکس کی اس عسیر الفہم کتاب کے پڑھنے والے اتنی تعداد میں ضرور موجود ہیں کہ چار سال بعد اسی سال دارالشعور نے دوسرا ایڈیشن شائع کیا۔ جس پر تقی صاحب کے بہت پرانے ساتھی اور دوست شفیع عقیل صاحب کا تبصرہ چند روز پہلے ”جنگ“ میں شائع ہوا ہے۔
اس ترجمے کے زمانے میں ہی نہیں بلکہ ”جنگ“ سے وابستگی کے چوبیس پچیس برسوں کے دوران تقی صاحب کا معمول یہ تھا کہ صبح ساڑھے چھ بجے ناشتہ کر کے تصنیف اور ترجمے میں چار گھنٹے مصروف رہتے اور گیارہ بجے مزید ایک پیالی چائے پی کر گھر کی گوشت ترکاری کی خریداری کے لئے بازار جاتے۔ پھر گھر آ کر نہا دھو کر کھانا کھا کر ساڑھے بارہ ایک بجے دفتر جنگ آتے اور پھر رات کو ساڑھے نو دس بجے اخبار مکمل کر کے پریس بھجوا کر گھر آتے، کھانا کھا کردو گھنٹے مطالعہ کر کے سو جاتے۔ اس دوران تقی صاحب سر سید کالج کے بانی اور پاکستان ایجوکیشنل سوسائٹی کے صدر سید الطاف علی بریلوی صاحب کے لئے کتابوں کے ترجمے کرتے رہے۔ انہی دنوں انہوں نے بریلوی صاحب کے لئے امریکی تعلیمی فلسفی کی کتاب ”جمہوریت اور تعلیم“ اور وہائٹ ہیڈ کی ”تعلیم کا فلسفہ“ نام کی کتابیں ترجمہ کیں۔ پھر اپنے طور پر نوبل انعام یافتہ سائنسدان سر جیمس جینس کی کتاب ”پراسرار کائنات“ اور سر آرتھر ایڈنگٹن کی کتاب ”سائنس اور فلسفہ“ کے ترجمے شائع کئے۔ تقی صاحب کی پہلی طبعزاد کتاب ”روح اور فلسفہ“ 1958ء میں اور دوسری ”منطق، فلسفہ اور سائنس“ 1968ء میں شائع ہوئیں۔ 1971-72ء میں بھٹو کے اقتدار کے اوائل میں انہوں نے اپنی سب سے اہم تصنیف ”تاریخ و کائنات، میرا نظریہ“ تقریباً آٹھ مہینے کے عرصے میں تصنیف کی جس کی رونمائی 1974ء میں ہوئی۔ اس میں موضوعات کے تنوع پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے رونمائی میں اپنی تقریر کے آخر میں یہ مصرعہ پڑھا کہ ”ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں۔“ اس کتاب نے تقی صاحب کو اردو زبان میں لکھنے والا برصغیر پاک و ہند کا پہلا صاحب نظام فلسفی بنایا۔
1999ء میں وفات تک وہ تصنیف ہی میں مصروف رہے۔ 1982ء میں بین الاقوامی فلسفہ کانگریس میکسیکو سٹی میں ہوئی۔ تقی صاحب کو مقالے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے کانگریس میں شرکت کی، مقالہ پیش کیا جس کا عنوان تھا ”فلسفہِ قانون“۔ اس سے کچھ ماہ قبل تقی صاحب کے انگریزی مضامین کا مجموعہ "Essays in Philosophy" شائع ہواتھا۔ انہیں اس سیشن کی صدارت کا اعزاز بھی دیا گیا۔ اسی دوران انہوں نے امریکہ کے بعض نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں سے ملاقات کر کے سائنس پر اپنے فلسفیانہ اعتراضات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے بعد تقی صاحب روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے مطالعہ کرتے۔ ایک تصنیف اس دوران مکمل ہوئی یعنی ”نہج البلاغہ کا تصور الوہیت“۔ وفات سے چار پانچ سال پہلے انہوں نے قویٰ مضمحل ہونے کے باوجود ٹائپرائٹر پر انگریزی کتاب "My View of Science" تصنیف کی جس کی کمپوزنگ 1998ء میں مکمل ہوگئی تھی لیکن ابھی شائع نہیں ہوئی ہے۔ سید محمد تقی فلسفی کی حیثیت سے خدا کو ”شعور محض“ کہتے تھے اور کائنات کو توانائی کے مختلف مظاہر سے تعبیر کرتے تھے۔ سیاست میں جمہوریت، معیشت میں مساوات اور ذاتی اخلاق میں ہر انسان کی عزت وتکریم کے قائل تھے۔ ان کا اپنا اخلاق اپنے اصولوں پر عمل کی تصدیق تھا۔
1999ء کی 20 جون کو تقی صاحب کی مختصر علالت شروع ہوئی۔ ڈاکٹروں نے انہیں ہیپاٹائٹس سی تشخیص کیا جو لاعلاج حد تک پھیل گیا تھا۔ 25 اور 26 جون کی شب وہ عظیم فلسفیوں کی آسمانی محفل میں شرکت کے لئے اس جہان فانی سے سدھار گئے۔ ان کی قبر کے تین اطراف ان کے بہترین اقوال کندہ ہیں اور کتبے پر جو تحریر کندہ ہے اس کے لکھنے والے نے حافظ شیرازی کے معروف شعر میں ایک لفظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ شعر لکھ دیا ہے
ہرگز نمیرد آن کہ دِلش زندہ شدز ”علم“
ثبت است بر جریدہِ عالم دوام ما
آپ کی اہم کتب کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
روح، فلسفہ اور سائنس
روح اور فلسفہ
تاریخ اور کائنات، میرا نظریہ
ہندوستان، پس منظر اور پیش منظر
بشکریہ:وکی پیڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود