آج – 23؍جون 1989
پاکستان کے مشہور شاعر” قیوم نظرؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
نام خواجہ عبد القیوم بٹ اور تخلص نظرؔ تھا۔ وہ 7؍مارچ 1914 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم پنجاب کے مختلف اسکولوں سے کی۔ اپنی دسویں کلاس مکمل کرنے کے بعد انہوں نے خود کو سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے مشن کالج ، لاہور میں داخلہ لیا۔ اس کے ایک سال سے بھی کم عرصے بعد ، ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس نے اسے اپنی تعلیم چھوڑنے اور نوکری لینے پر مجبور کردیا۔ وہ دو سال سے زیادہ عرصے سے مختلف فرموں اور سرکاری دفاتر میں کام کیا۔ ایک بار پھر ، اس نے خود دیال سنگھ کالج میں اعلی تعلیم کے لئے داخلہ لیا اور پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹر مکمل کیا۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے اور پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی کے شعبہ کے ہیڈ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ابتدائی عمر سے ہی انہیں شعر و ادب سے گہری دلچسپی تھی۔ اسے سفر اور شکار کا بہت شوق تھا لہذا انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے مختلف مقامات دیکھنے کا موقع ملا۔ ٢٣؍جون ١٩٨٩ء کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔
” سودا ، قندیل ، اردو نثر انیسویں صدی ، وسعتِ امانت ، پون جھکولے اور قلب و انداز کے فاصلے “ ان کی تخلیقات کا مجموعہ ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
═══════════════════
معروف شاعر قیوم نظرؔ کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا
دل زندگی سے بار دگر آشنا ہوا
اک اک قدم پہ اس کے ہوا سجدہ ریز میں
گزرا تھا جس جہاں کو کبھی روندتا ہوا
دیکھا تجھے تو آرزوؤں کا ہجوم تھا
پایا تجھے تو کچھ نہ تھا باقی رہا ہوا
دشتِ جنوں میں ریگِ رواں سے خبر ملی
پھرتا رہا ہے تو بھی مجھے ڈھونڈھتا ہوا
احساسِ نو نے زیست کا نقشہ بدل دیا
محرومیوں کا یوں تو چمن ہے کھلا ہوا
چمکا ہے بن کے سرو چراغاں تمام عمر
کیا آنسوؤں کا تار تھا تجھ سے بندھا ہوا
بکھرے ہیں زندگی کے کچھ اس طرح تار و پود
ہر ذرہ اپنے آپ میں محشر نما ہوا
پوچھو تو ایک ایک ہے تنہا سلگ رہا
دیکھو تو شہر شہر ہے میلہ لگا ہوا
پردہ اٹھا سکو تو جگر تک گداز ہے
چاہو کہ خود ہو یوں تو ہے پتھر پڑا ہوا
انسان دوستی کے تقاضوں کا سلسلہ
انسان دشمنی کی حدوں سے ملا ہوا
اقدار کے فریب میں اب آ چکا نظرؔ
کشتی ڈبو گیا جو خدا، ناخدا ہوا
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
خواہشوں کی موت کا یارو بھلا چاہا کرو
پھیلتی تاریکیوں میں چاند کا چرچا کرو
بے محابا جم ہی جائیں درد کی جب محفلیں
اپنے غم کو شہر بخت نارسا سمجھا کرو
لہلہاتی وادیوں سے خوب تر ہیں ریگ زار
دل کے صحرا میں گلستاں کی فضا پیدا کرو
رنج کی گہرائیوں کی تہہ کو پانے کے لیے
دوستوں کی دشمنی کو بھی عطا جانا کرو
عاقبت کی فکر نادانوں کا حصہ ہی سہی
عاقبت کے تذکرے پر برملا رویا کرو
تلخ تر ہو زندگی تو لطف دے شاید سوا
نا شناساؤں کی خاطر آشنا ڈھونڈا کرو
کیا سے کیا شکلیں دکھاتا ہے فریب آگہی
دشتِ امکاں سے کوئی ذرہ اٹھا لایا کرو
عظمتِ انساں کے دکھ میں گھل رہا ہے عہد نو
اس مسیحا کے لیے مل کر دعا مانگا کرو
خرچ اٹھتا ہی نہیں اور رنگ لاتا ہے غضب
بے گنہ کے خوں سے بھی قشقہ ذرا کھینچا کرو
خاک اڑتی ہے کہ روشن حسن کا آنچل ہوا
چہرۂ گیتی بہ صد بیم و رجا دیکھا کرو
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
قیوم نظرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ