آج – 7؍مارچ 1972
پاکستان کے معروف شاعر” یوسف ظفرؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
نام محمد یوسف اور تخلص ظفرؔ تھا۔ یکم؍دسمبر ۱۹۱۴ء کو کوہ مری میں پیدا ہوئے۔ وطن گوجرانوالہ تھا۔ تعلیم راول پنڈی اور لاہور میں حاصل کی۔ ۱۹۳۶ء میں بی اے کیا۔ ۱۹۳۷ء میں وہ روزگار کی تلاش میں دہلی گئے۔ جوش ملیح آبادی سے ملاقات ہوئی۔ جوش نے اپنے رسالہ’’کلیم ‘‘ کا منیجر مقرر کردیا۔ ۱۹۳۸ء میں وہ محکمۂ نہر ، لاہور میں کلرک کی اسامی پر کام کرنے لگے۔ ۱۹۴۲ء میں رسالہ ’’ہمایوں‘‘ سے منسلک ہوئے۔ ۱۹۴۷ء کے اواخر میں وہ رسالہ’’ہمایوں‘‘ سے علیحدہ ہوگئے۔ ۱۹۴۸ء میں حبیب بینک، ملتان کے منیجر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں پاکستان فضائیہ میں ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ ۱۹۴۹ء میں ریڈیو پاکستان اسکرپٹ رائٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں راول پنڈی اسٹیشن سے وابستہ ہوئے۔ وہ دو تین دفعہ حلقۂ اربابِ ذوق کے سکریٹری منتخب ہوئے۔ انھوں نے شاعری کی ابتدا غزل سے کی۔ رسالہ ’’کلیم ‘‘ کی منیجری کے زمانے میں جوش کے زیر اثر نظم کی طرف رجوع کیا۔
۷؍ مارچ ۱۹۷۲ء کو راول پنڈی میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’زنداں‘‘، ’’زہرخند‘‘، ’’نواے ساز‘‘، ’’صدا بہ صحرا‘‘ ، ’’عشق پیچاں‘‘، ’’حریم وطن‘‘ ۔ ڈاکٹر تصدق حسین راجا نے ’’کلیات یوسف ظفر ‘‘ مرتب کردی ہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:66
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
معروف پاکستانی شاعر یوسف ظفرؔ کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
جو حروف لکھ گیا تھا مری آرزو کا بچپن
انہیں دھو سکے نہ دل سے مری زندگی کے ساون
وہ جو دن بکھر چکے ہیں وہ جو خواب مر چکے ہیں
میں انہی کا ہوں مجاور مرا دل انہی کا مدفن
یہی ایک آرزو تھی کہ مجھے کوئی پکارے
سو پکارتی ہے اب تک مجھے اپنے دل کی دھڑکن
کوئی ٹوٹتا ستارہ مجھے کاش پھر صدا دے
کہ یہ کوہ و دشت و صحرا ہیں سکوتِ شب سے روشن
تری منزلِ وفا میں ہوا خود سے آشنا میں
تری یاد کا کرم ہے کہ یہی ہے دوست دشمن
ترے روبرو ہوں لیکن نہیں روشناس تجھ سے
تجھے دیکھنے نہ دے گی ترے دیکھنے کی الجھن
ظفرؔ آج دل کا عالم ہے عجب میں کس سے پوچھوں
وہ صبا کدھر سے آئی جو کھلا گئی یہ گلشن
●━─┄━─┄═•••••═┄─━─━━●
وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا
کہ اس کا غم ہی مری زیست کا بہا نہ ہوا
نظر نے جھک کے کہا مجھ سے کیا دم رخصت
میں سوچتا ہوں کہ کس دل سے وہ روانہ ہوا
نم صبا مئے مہتابِ عطر زلفِ شمیم
وہ کیا گیا کہ کوئی کارواں روانہ ہوا
وہ یاد یاد میں جھلکا ہے آئنے کی طرح
اس آئنہ میں کبھی اپنا سامنا نہ ہوا
وہ چند ساعتیں جو اس کے ساتھ گزری ہیں
انہی کا دور رہا اور جاودانہ ہوا
میں اس کے ہجر کی تاریکیوں میں ڈوبا تھا
وہ آیا گھر میں مرے اور چراغ خانہ ہوا
وہ لوٹ آیا ہے یا میری خود فریبی ہے
نگاہ کہتی ہے دیکھے اسے زمانہ ہوا
میں اپنے درد کی نسبت کو دل سمجھتا ہوں
قفس جو ٹوٹ گیا میرا آشیانہ ہوا
اسی کی یاد ہے سرمایۂ حیات ظفرؔ
نہیں تو میرا ہے کیا میں ہوا ہوا نہ ہوا
میں ہوں تیرے لیے بے نام و نشاں آوارہ
زندگی میرے لیے تو ہے کہاں آوارہ
تجھ سے کٹ کر کوئی دیکھے تو کہاں پہنچا ہوں
جیسے ندی میں کوئی سنگ رواں آوارہ
تجھ کو دیکھا ہے کہیں تجھ کو کہاں دیکھا ہے
وہم ہے سر بہ گریباں و گماں آوارہ
دیر و کعبہ کی روایات سے انکار نہیں
آؤ دو دن تو پھریں نعرہ زناں آوارہ
تیرے دامن کی طرح دامن شب رخشندہ
میرے اشکوں کی طرح کون و مکاں آوارہ
جلتے بجھتے ہیں ہر اک گام پہ تابندہ نجوم
کوئی ہے آج سر کاہکشاں آوارہ
بھیگی راتوں میں ظفرؔ پھرتا ہے تنہا تنہا
آہ وہ سوختہ دل سوختہ جاں آوارہ
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
یوسف ظفرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ