آج – 20؍فروری 1999
پاکستان کے مقبول،ممتاز، ترقی پسند شاعر” غلام محمد قاصرؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
نام غلام محمد قاصر اور قاصرؔ تخلص ہے۔ ۴؍ستمبر ۱۹۴۱ء کو پہاڑپور(ڈیرہ اسماعیل خاں) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۸ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پہلے اپنے طور پر فاضل اردو اور پھر ایم اے (اردو) کے امتحانات پاس کیے۔ میٹرک کے بعد ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۵ء سے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مردان میں شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔ ۲۰؍فروری۱۹۹۹ء کو پشاور میں انتقال کرگئے۔ان کا مجموعۂ کلام ’’تسلسل‘‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’دریائے گمان‘‘، ’’ آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے‘‘ ۔ انھیں صدارتی ایوراڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:353
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
ممتاز شاعر غلام محمد قاصرؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
—
پھر وہ دریا ہے کناروں سے چھلکنے والا
شہر میں کوئی نہیں آنکھ جھپکنے والا
—
لکھتا ہوں تو پوروں سے دل تک اک چاندنی سی چھا جاتی ہے
قاصرؔ وہ ہلال حرف کبھی ہو پائے نہ ماہِ منیر تو کیا
—
پانی تو ہے کم نقل مکانی ہے زیادہ
یہ شہر سرابوں میں بسانا ہی نہیں تھا
—
محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا
جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل! ادھر لے جا
—
گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک
سفر لمبا تھا خوشبو کا مگر آ ہی گئی گھر تک
—
کہ اسی کے نام تک آئے تھے یہ صدا و صدق کے سلسلے
وہی شخص جس نے ترے لیے کیا قتل سوچتی رائے کا
—
کتابِ آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں
ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں
—
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
—
بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے
زندگی سے یہ مرا دوسرا سمجھوتا ہے
—
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
—
منجمد سجدوں کی یخ بستہ مناجاتوں کی خیر
آگ کے نزدیک لے آئی ہے پیشانی مجھے
—
نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے
—
لفظوں کا بیوپار نہ آیا اس کو کسی مہنگائی میں
کل بھی قاصرؔ کم قیمت تھا آج بھی قاصر سستا ہے
—
خواب کہاں سے ٹوٹا ہے تعبیر سے پوچھتے ہیں
قیدی سب کچھ بھول گیا زنجیر سے پوچھتے ہیں
—
یہ بھی اک رنگ ہے شاید مری محرومی کا
کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے
—
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
—
خوشبو گرفت عکس میں لایا اور اس کے بعد
میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی
—
نام لکھ لکھ کے ترا پھول بنانے والا
آج پھر شبنمیں آنکھوں سے ورق دھوتا ہے
—
شوقِ برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے
—
ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﺻﺪﺍﺋﮯ ﺯﺧﻢ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﮔﺌﯽ
ﺍﮎ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﭩﮏ ﮔﺌﯽ
—
تیرے بخشے ہوئے اِک غم کا کرشمہ ہے کہ اب
کوئی بھی غم ہو مرے معیار سے کم ہوتا ہے
—
یہ کوئی تخت و تاج نہیں ہے کہ چھوڑ دوں
سانسوں کا انحصار ہے تیرے خیال پر ۔۔!!!!
—
یہ بھی اک رنگ ہے شاید مری محرومی کا
کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے
—
کتابِ آرزو کے گمشدہ کچھ باب رکھے ہیں
تیرے تکیے کے نیچے بھی ، ھمارے خواب رکھے ہیں
—
قاصرؔ نے تو دیکھا ہے اب تک فاقوں کا رقص
جوہری طاقت کیا ہے جوہر میرؔ سے پوچھتے ہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
غلام محمد قاصرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ