16 اپریل 1995ء کو معصوم بچوں کا مسیحا اقبال مسیح موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں !!
یہ ہنستا مسکراتا چہرہ پاکستان کا تھا۔
اقبال مسیح ایک پاکستانی بچہ تھا۔
ہمارا مستقبل۔
ہمارا فخر۔
ہمارا گمنام ہیرو !!
آج 25 سال ہوگئے لیکن انصاف نہ ملا ۔
اقبال مسیح 1983ء میں ضلع شیخوپورہ کے نواحی شہر مرید کے میں پیدا ہوا۔ اقبال کے والد نے اس کے بڑے بھائی کی شادی کے لیے چند سو روپے کا قرض ارشد نامی ایک مقامی تاجر سے لے رکھا تھا مگر ادھار ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے چار سالہ اقبال کو کارپٹ فیکٹری میں مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ چھ سال تک کے لیے اقبال دن میں چودہ گھنٹے تک کام کرتا رہا مگر قرض تھا کہ جوں کا توں موجود رہا۔
اتنی چھوٹی سی عمر ہی سے اقبال مسیح نے زندگی کا بدصورت رخ جھیلنا شروع کیا۔
چونکہ فیکٹری مالک صرف ایک وقت کا کھانا دیتا تھا اور پورا ھفتہ روزانہ 14 گھنٹے کام کرواتا تھا۔
جب اقبال مسیح دس سال کا ہوا تو اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا مگر پولیس کے مقامی افسران نے اس کو پکڑ کر دوبارہ اسی تاجر کے حوالے کر دیا۔
بغاوت نے اقبال کے ذہن میں جنم لیا سو 1990 کو وہ غلامی کی زنجیریں توڑ کر بھاگ نکلا لیکن چونکہ فیکٹری مالک اثر رسوخ والا تھا سو پولیس کو رشوت دے کر جلد ہی اسے گرفتار کر لیا گیا کچھ دن قید میں پولیس کے ہاتھوں ٹارچر کروانے کے بعد اسے دوبارہ فیکٹری میں کام کے لیے قید کردیا گیا۔
اب کی بار کام کا بوجھ مزید بڑھا دیا گیا مگر ایک ہی سال بعد اقبال پھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس دفعہ خوش قسمتی سے وہ "چائلڈ لیبر" کے خلاف سرگرم تنظیم کے پاس جا پہنچا جنہوں نے پاکستانی قانون کی روشنی میں اسے غلامی کے طوق سے نجات دلائی۔
بعد ازاں اقبال مسیح اپنے ہی جیسے تقریباً تین ہزار ننھے مزدوروں کی رہائی کا سبب بنا۔ اقبال مسیح دوبارہ فرار ہوا اور اس نے اس مرتبہ اپنے ساتھ لاہور کے تین ہزار بچوں کو بھی سرمایہ داروں کی قید سے آزاد کیا۔
اقبال مسیح نے 10 سال کی عمر میں بچوں کی آزادی کی پہلی تحریک کی بنیاد رکھی۔
جی ہاں ایک پارٹی جس کا نام bonded child libration تھا۔
اقبال ایک لیڈر بن چکا تھا !!
ایک دس سالہ لیڈر جس نے سرمایہ داروں کی فیکٹریوں اور بھٹوں سے ہزاروں بچوں کو آزاد کیا۔
دنیا کو خبر ہوئی تو اقبال جو گیارہ سال کی عمر میں بھی چار فٹ سے کم قد کا تھا، کی دھوم مچ گئی۔ اسے عالمی ری بک یوتھ ان ایکشن ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے تحت سالانہ پندرہ ہزار امریکی ڈالر کی تعلیمی سکالر شپ دی گئی جبکہ برینڈیز یونیورسٹی نے اقبال کو کالج کی عمر تک پہنچنے پر مفت تعلیم دینے کا اعلان کیا۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے اس ہیرو کو پہلے سویڈن اور اس کے بعد امریکا میں اسکول کے بچوں سے بات چیت کرنے کے لیے بلایا جہاں مقامی سکولوں کے طالب علموں نے اپنے جیب خرچ سے ایک فنڈ قائم کیا جو آج بھی پاکستان میں بچوں کے بیس اسکول چلا رہا ہے۔
اسی دوران میں اقبال نے دو سالوں میں چار سال کے برابر تعلیم حاصل کی حالانکہ وہ اپنے ہم عمر بچوں سے بہت ہی چھوٹا دکھائی دیتا تھا مگر اس کا عزم بہت بڑا تھا۔
لیکن اس ننھے ہیرو کو 1995ء میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔
1995 میں جب اقبال امریکا سے واپس اپنے گاؤں رکھ باؤلی پہنچا تو 16 اپریل 1995ء کو جب وہ سائیکل چلا رہا تھا تو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے اس ننھے ہیرو کی زندگی ختم کر ڈالی۔ یہ گناہ کن ظالموں کے ہاتھوں سرزد ہوا کوئی نہیں جانتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال کو اسی تاجر نے مار ڈالا تھا جس کے پاس وہ بچپن میں کام کرتا تھا جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ کسی مقامی کسان کو اقبال مسیح کی نیک نامی ایک آنکھ نہ بھائی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے اشرف ہیرو نامی ہیروئن کے عادی شخص نے قتل کیا۔
اقبال کی موت کی خبر پر معروف امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ کی لکھی گئی لائن ہے کہ آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کتنا بہادر تھا۔
اقبال کی موت کے بعد مقامی نوجوانوں نے کینیڈا میں فری دی چلڈرن نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی جبکہ اقبال مسیح شہید چلڈرن فاؤنڈیشن کا بھی آغاز کیا گیا جو جبری مزدوری کرنے والے بچوں کو علم کی روشنی کی طرف لانے کے لیے کام کرتی ہے۔
2009ء میں امریکی کانگرس نے سالانہ اقبال مسیح ایوارڈ کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد میں سے ہر سال کسی ایک کو دیا جاتا ہے۔ 2014ء میں جب بھارتی شہری کیلاش ستیارتھی کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا تو انہوں نے بھی اپنی تقریر میں اقبال مسیح کو خراج عقیدت پیش کیا۔
اقبال مسیح کا تذکرہ اطالوی مصنف فرانسسکو ڈی اڈامو کے ناول میں بھی موجود ہے۔
ناول میں ایک فاطمہ نامی بچی کے افسانوی کردار کی زبانی اقبال کی داستان کچھ یوں بیان ہوئی ہے:
" ہم سب بچے اپنے بچپن کے دنوں میں ہی سب کچھ بھولتے جا رہے تھے اور ہمارے ذہنوں میں قالین بنانے کے سوا کچھ باقی نہ رہا تھا کہ چار سالہ اقبال ہماری زندگی میں شامل ہوا اور پھر سب کچھ بدل گیا "۔
این لیوری نے اسی ناول کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر رکھا ہے۔
اقبال مسیح کو پوری دنیا میں اعزازات سے نوازا گیا۔ کینیڈا میں آج بھی اقبال مسیح کے نام سے چلڈرن رائٹس فنڈ اشو ہوتا ہے۔
1994 میں ریبوک چائلڈ ہیرو کا ایوارڈ بھی اقبال کے حصہ میں آیا۔
لیکن کچھ نہ ملا تو وہ اسے اس کے ملک سے نہ ملا۔
کیا آپ نے اقبال مسیح کا نام تک بھی پہلے سنا تھا
نہیں نہ ?
کیونکہ اقبال آواز ہے جدوجہد کی !!
سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی !!
اور یہ میڈیا یا اخبارات کبھی بھی اقبال کے بارے میں نہیں بولے اور نہ ہی بولیں گے
کیونکہ یہ سب سرمایہ داروں کی کمپنیز ہیں
پارلیمنٹ سے لیکر عدلیہ سے ہوتے ہوئے !!
بیوروکریسی کے دروازوں سے نکل کر میڈیا کے دفتروں تک !!
ہر جگہ سرمایہ دار بیٹھا ہے !!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش : نیرہ نور خالد
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...