::: ن ۔ م راشد کا احوال ذات اور انکی مذھب بیزاری اور گریزیت" :::
ن۔ م۔ راشد یکم اگست 1910ء کو گوجرانوالہ { پنجاب } کے ایک قصبے علی پور چٹھا/ کوٹ بگہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام راجا نذر محمد تھا۔ اور تاریخی نام " خضر" تھا۔ آج اردو ادب کی جدید تاریخ ن م راشد کے ذکر کے بغیرنا مکمل ہے ۔ وہ جدید شاعری میں آزاد نظم کے بانی، علامت نگاری کی تحریک، نفی دانش کے اولین مشعل بردار ہیں۔
"انھوں نے اپنا تخلص گلابؔ رکھا تھا ۔ اس نظم پر ان کے والد نے ایک روپیہ انعام دیا تھا ۔ دادا ڈاکٹر غلام رسول غلامی اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ یہ نظم والد نے انھیں بھجوائی اور لکھا کہ آپ کا پوتا آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دادا نے اس پر ایک شعر لکھ کر بھیجا:
میرے میاں گلاب دہن میں گلاب ہو
خوش بوسے تیری بابا ترا فیض یاب ہو
اور ساتھ ہی نصیحت کی کہ شاعر بننے کی کوشش نہ کرنا کسی کام کے نہ رہو گے۔ اور ہمیشہ شعر گوئی سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔اس نصیحت کے باوجود ن م راشد نے شعر گوئی ترک نہیں کی۔اس پہلی نظم کے بعد انھوں نے کچھ حمدیں ، نعتیں اور غزلیں کہیں ۔ ان میں سے کچھ بعض گم نام رسالوں میں چھپتی رہیں ۔ خاص طور پر ” تفریح” بجنور اور ” کائنات” پانی پت میں ۔ اس وقت قلمی نام متعین نہیں ہوا تھا ۔ ان رسالوں میں اکثر پورا نام چھپتا رہا۔ نذر محمد خضر عمر ( تاریخی نام) اور بعض دفعہ اس کے ساتھ راجپوت جنجوعہ کا اضافہ بھی ہوتا تھا ۔ کچھ عرصے تک راشد وحیدی کے نام سے بھی مضامین اور نظمیں لکھیں ۔ اک آدھ غزل خاطف جبلپوری کے نام سے بھی شائع ہوئی ۔{ابوالحسن علی بھٹکلی} ۔۔۔ابتدا میں وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت متاثر رہے، اور باقاعدہ وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتےرہے۔
جدید دور کے ہولناک حالات اور نئے مغربی علوم ، راشد کے ادراک کا حصہ بن رہے تھے جنہوں نے فرد کے داخلی ، دھندلے اور مبہم امکانات کو بھی قابلِ توجہ بنادیا تھا۔ شاعری میں ان نئے مضامین اور نئی ہیت کا در آنا ایک فطری عمل تھا اور وقت کی ضرورت بھی جسے راشد نے قبول کر لیا۔انہوں نے غزل کے روایتی پیرافرنیلیا کو چھوڑ کر غیر روایتی مضامین کو غیر روایتی ہیت میں ڈھالنے کے شعری تجربے کی ابتدا کی ۔ ن۔ م ۔ راشد کے کلام کے چار مجموعے ماورا (1942) ایران میں اجنبی (1955) لا= انسان(1959) اور گمان کا ممکن (1977) شائع ہوئے ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے تخلیق کار مزاج سے آشنائی ضروری ہے کیونکہ موضوعات ، ہیئت اور اسلوب ، اساطیر کی تاریخ کاری کے انتخابات میں شاعر کا بنیادی مزاج کار فرما ہوتا ہے، راشدؔ کی شاعری کی تفہیم کے لیے بھی اس کی شخصیت اور عہد سے متشکل ہونے والے ان کے فطین اور خلقی ذہن کی تفھیم اور آگہی ضروری ہے، راشدؔ بلاشبہ اپنے عہدے کے بڑے اور منفرد شاعر ہیں وہ اردو کی روایتی شاعری اور بنے بنائے فرسودہ سانچوں اور لسانی و فکری ساخت سے مطمئن نہیں ہیں ۔زندگی کے آخری ایام میں وہ لندن میں مقیم تھے۔جہاں وہ 9 اکتوبر 1975ءکو وفات پاگئے ان کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کی لاش کو نذر آتش کردیا گیا۔ وہ زندگی بھر دنیا کو چونکاتے رہے تھے اور موت کے بعد بھی اپنی یہ عادت ترک نہ کرسکے۔ اکثر خبروں میں رہا کرتے تھے۔ راشد کی شاعرے میں خدا اور دیگر الہاتی پہلوں کو بھی جگہ ملی، گو وہ خدا سے مطمن نہیں، انھیں خدا سے کچھ شکوے شکایتیں ہیں۔ کیونکہ الہیات کی حرکیات حے جو فکری اور معاشرتی جمود پیدا ہوتا ہے۔ اس طرف راشد نے بڑی بیباکی سے اشارہ کیا ہے۔ لہذا ان کے شعری اظہار میں ذرّہ برابر منافقت کا شائبہ نہیں ہوتا۔
راشد کومذہب کے موضوع سے بھی دلچسپی ہے ۔انہیں لگتا ہے مشرق کا خدا زندگی میں نا موجود ہے ا ور مشرق کا انسان تشکیک کا شکار ہورہا ہے۔ ایک اقتباص ان کی نظم دریچے کے قریب ،سے پیشِ خدمت ہے،
آ مری جان! مرے پاس دریچے کے قریب
دیکھ کس پیار سے انوارِ سحر چومتے ہیں مسجدِ شہر کے میناروں کو
جن کی رفعت سے مجھے اپنی برسوں کی تمنا کا خیال آتا ہے
اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے!
اپنے بیکار خدا کی ماننداونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں
ایک افلاس کا مارا ہوا ملاےء حزیں،
انھوں نے دو خداوں کے وجود کا احساس دلوایا۔ ان کے یہان خدا سے بیزاری کا اظہار کیا ور وہ فرشتوں کے ہاتھوں خدا کا جنازہ بھی اٹھوا دیتے ہیں۔ انھوں نے تصوف پر بھی طنزکیا ہے۔
** ہم تصوف کے نہال خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پر ہسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشان سر منزل پایا ۔۔۔ { تصوف} **
راشد کی شاعرے میں خدا اور دیگر الہاتی پہلوں کو بھی جگہ ملی، گو وہ خدا سے مطمن نہیں، انھیں خدا سے کچھ شکوے شکایتیں ہیں۔ کیونکہ الہیات کی حرکیات حے جو فکری اور معاشرتی جمود پیدا ہوتا ہے۔ اس طرف راشد نے بڑی بیباکی سے اشارہ کیا ہے۔ لہذا ان کے شعری اظہار میں ذرّہ برابر منافقت کا شائیبہ نہیں ہوتا۔ انھوں نے دو خداوں کے وجود کا احساس دلوایا۔ ان کے یہان خدا سے بیزاری کا اظہار کیا ور وہ فرشتوں کے ہاتھوں خدا کا جنازہ بھی اٹھوا دیتے ہیں۔ انھوں نے تصوف پر بھی طنزکیا ہے۔
** ہم تصوف کے نہال خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پر ہسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشان سر منزل پایا ۔۔۔ { تصوف} **
راشد ایک نظم میں لکھتے ہیں:
صبح کے نور سے شاداب سہی
اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے
اپنے بیکار خدا کی مانند
اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں
ایک افلاس کا مارا ہوا ملائے حزیں
ایک عفریت ۔۔۔ اداس
(دریچے کے قریب )
مسجد ، ملا ،لوگ اور خود متکلم سب علامتیں ہیں ،مذہب کی لا معنویت اور عوام کی زندگی کے رائیگاں سفر کی۔راشد کی شاعری میں ،دیوار، نئے عہد میں پرانی اقدار سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کی علامت ہے۔ تیرگی عصرِ حاضر کے فرد کے باطنی سفر کی لا حاصلی کی علامت ہے ۔ راشد کی شاعری میں خودکشی کا عمل بھی ایک علامت بن کر ابھرا ہے جو کرشن چندر کے خیال میں ارضِ مشرق کی “ڈیتھ وِش” کا اظہار ہے۔ایسی بیشمار علامتیں راشد کے اجتماعی شعور کی عکاس ہیں۔ شاعر کو زندگی میں حسن اور دلکشی نظر نہیں آتی ۔ زندگی سے بےزاری اور بے اطمینانی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ اس کے نزدیک زندگی ایک زہر بھرا جام ہے۔
۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔
"ن۔ م راشد کے شاعری کے متعلق محمد حسن عسکری کے تاثرات"
========================================
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
یہی مجروح اور شکست خوردہ ذہنیت جب اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تو اجنبی عورت کے جسم سے انتقام لینا شروع کر دیتی ہے۔ آپ لوگوں نے اس نظم “انتقام” پر راشد کو بہت طعنے دیے ہیں لیکن وہ غریب تو خود اپنے آپ کو طعنہ دے رہا ہے، خود اپنے اوپر استہزا کر رہا ہے۔ آپ اس کا لہجہ نہ سمجھیں تو وہ کیا کرے۔ یہ نظم جنسی نہیں ہے جیسا کہ آپ سمجھے ہیں، بلکہ سیاسی اور اخلاقی۔ ایسی نظموں میں راشد اپنی گھناؤنی خواہشوں کا اظہار نہیں کرتا بلکہ قوت ارادی اور “جینے کی خواہش” کی کمزوریوں اور بیماریوں کا تجزیہ۔ محض عشرت پسندی اور تن آسانی اور “کھاؤ پیو، مگن رہو” والا نظریہ آپ کو کسی نئے شاعر میں نہیں مل سکتا۔ (" ادب و فن میں فحش " : از محمد حسن عسکری) :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی کے مطابق راشد کے نزدیک مشرق کی اصل خرابی کی جڑ وہ عقیدہ ہے جس کی رو سے انسان کے سارے اعمال و افعال خدا کی مرضی سے طے ہوتے ہیں { جدید اردو نظم نظریہ و عمل، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ۔ ۱۹۹۰ ص: ۲۰۱ }
راشدؔ اپنی آخری عمر میں اسلام سے دور ہوچکے تھے، مگرعموما وہ کھل کر اس کا اظہار عام زندگی اور ملنے والوں سے نہیں کرتے تھے اورموت سے قبل ان کی مذھب بیزاری حد درجے بڑھ گئی تھی۔ان کی آخری رسوم کے متعلق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ راشد چونکہ آخری عمر میں صومعہ و مسجد کی قیود سے دور نکل چکے تھے‘ اس کے باعث انہوں نے عرب سے درآمد شدہ رسوم کے بجائے اپنے لواحقین کو اپنی آبائی ریت و رواج پر‘ چتا جلانے کی وصیت خود کر دی تھی۔ ان کے دوسرے بھائی بھی آخری عمر اسلام چھوڑ کر ہندو دھرم کو قبول کر چکے تھے۔ اور انہوں نے اپنی لاش کو ریت پر نذر آتش کی وصیت کی ۔ اس تحریر کے ساتھ راقم سطور کی کتاب " تنقیدی تحریریں" میں شامل ایک مضمون ۔۔" خارجی اور باطنی آگہی سے دوچار شاعر ن ۔ م۔ راشد" شامل ہے۔ یہ مضمون ماہنامہ " آئندہ"، کراچی جون جولائی 1997 اور جولائی تا ستمبر 2006 کے " سمبل " ، روالپنڈی کی اشاعت میں بھی شامل تھا۔ ۔۔۔