آج – 7؍مارچ 2006
صحافی، ادیب اور ممتاز جدید شاعر” نشترؔ خانقاہی صاحب “ کا یومِ وفات…
نشترؔ خانقاہی، پیدائش فروری 1930ء کو جہاں آباد ضلع بجنور میں ہوئی۔ اسکول کی تعلیم بجنور میں ہی حاصل کی اس کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور تلاش معاش میں دہلی آگئے۔ دہلی میں انہوں نے صحافت کو پیشے کے طور پر اختیار کیا۔ ماہنامہ ’شاہراہ‘ ’سو برس‘ اور ’مشاہدے‘ جیسے جریدوں کی ادارت کی۔ ہندی رسائل میں بھی ان کے مضامین اور شاعری تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہی۔ دہلی کے بعد ممبئی میں بھی قیام کیا۔ وہاں روزنامہ ’جمہوریت‘ سے وابستہ رہے۔
نشتر خانقاہی کے اس طویل صحافتی تجربے کے اثرات ان کی شاعری میں بھی نظر آتے ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں ان کے وقت کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی مسائل کو مخصوص تخلیقی ہنر مندی کے ساتھ منعکس کرتی ہیں۔ نشتر خانقاہی کے اردو اور ہندی میں متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے۔ کچھ کے نام یہ ہیں۔ ’میرے لہو کی آگ‘ ’دسترس‘ ’سرائے میں شام‘ ’منظر وپس منظر‘ ’معلوم نامعلوم‘ ’موسم کی بیساکھیاں‘ ’کیسے اور کیوں‘ ’کیسے کیسے لوگ ملے‘ وغیرہ ۔
٧؍مارچ ٢٠٠٦ء کو بجنور میں انتقال ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر نشترؔ خانقاہی کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
اپنا بیمار ہے دل عشق کا بیمار نہیں
خود تشفی کے سوا ہجر کا آزار نہیں
—
تعمیر ہم نے کی تھی ہمیں نے گرا دیے
شب کو محل بنائے سویرے گرا دیے
—
کشش تو اب بھی غضب کی ہے نازنینوں میں
مگر وہ چاند چمکتا نہیں جبینوں میں
—
کبھی تو ملتوی ذکرِ جہاں گرداں بھی ہونا تھا
کبھی تو اہتمام صحبتِ یاراں بھی ہونا تھا
—
ہوائیں گرد کی صورت اڑا رہی ہیں مجھے
نہ اب زمیں ہی مری ہے نہ آسمان مرا
—
خوش فہمیوں کو درد کا رشتہ عزیز تھا
کاغذ کی ناؤ تھی جسے دریا عزیز تھا
—
آپ اپنی ذات میں سمٹا ہوا عالم تمام
تم کو یوں جانا کہ تھا جانا ہوا عالم تمام
—
پیشانیٔ حیات پہ کچھ ایسے بل پڑے
ہنسنے کو دل نے چاہا تو آنسو نکل پڑے
—
میرے بدن کی آگ ہی جھلسا گئی مجھے
دیکھا جو آئنہ تو ہنسی آ گئی مجھے
—
دیکھا نہیں دیکھے ہوئے منظر کے سوا کچھ
حاصل نہ ہوا سیر مکرر کے سوا کچھ
—
مسافر خانۂ امکاں میں بستر چھوڑ جاتے تھے
وہ ہم تھے جو چراغوں کو منور چھوڑ جاتے تھے
—
قہر تھا ہجرت میں خود کو بے اماں کرنا ترا
دشت نامحفوظ اور اس میں مکاں کرنا ترا
—
تیز رو پانی کی تیکھی دھار پر بہتے ہوئے
کون جانے کب ملیں اس بار کے بچھڑے ہوئے
—
پرسش حال سے غم اور نہ بڑھ جائے کہیں
ہم نے اس ڈر سے کبھی حال نہ پوچھا اپنا
—
مری قیمت کو سنتے ہیں تو گاہک لوٹ جاتے ہیں
بہت کمیاب ہو جو شے وہ ہوتی ہے گراں اکثر
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
نشترؔ خانقاہی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ