ﻧﻮﺍﺏ ﻣﺤﺴﻦ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﻧﺎﻡ ﺳﯿﺪ ﻣﮩﺪﯼ ﻋﻠﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﭖ 9 ﺩﺳﻤﺒﺮ 1837 ﺀ ﮐﻮ ﺍﭨﺎﻭﮦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﺗﻨﮓ ﺩﺳﺘﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﻼﺯﻣﺖ ﺗﺮﮎ ﮐﺮﮐﮯ ﺳﺘﺮﮦ ﺑﺮﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﺎﮨﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﺴﭧ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﮐﮯ ﮈﺳﭩﺮﮐﭧ ﺭﯾﻮﻧﯿﻮ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﺮﮎ ﺑﮭﺮﺗﯽ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔ 1861 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﺎﻭﮦ ﮐﮯ ﺗﺤﺼﯿﻠﺪﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﮐﮯ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﮐﮯ 1867 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺯﺍ ﭘﻮﺭ ﮐﮯ ﮈﭘﭩﯽ ﮐﻠﮑﭩﺮ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ۔ 1874 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺪﺭ ﺁﺑﺎﺩ ﺩﮐﻦ ( ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﮨﻨﺪ ) ﮐﮯ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﺳﺮﺳﺎﻻﺭ ﺟﻨﮓ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﻼﻟﯿﺎﺟﮩﺎﮞ ﺍُﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ 19 ﺳﺎﻝ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﮟ۔ 1888 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﺴﺘﺎﻥ ﮔﺌﮯ۔ ﻭﻃﻦ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮐﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺳﯿﺪ ﮐﮯ ﺭﺳﺎﻟﮯ ’’ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺍﻻﺧﻼﻕ ‘‘ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﺬﮨﺒﯽ، ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺻﻼﺣﯽ ﻣﻀﺎﻣﯿﻦ ﻟﮑﮭﮯ ۔ﺁﻝ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﻣﺤﻤﮉﻥ ﺍﯾﺠﻮﮐﯿﺸﻨﻞ ﮐﺎﻧﻔﺮﻧﺲ ﮐﯽ ﺳﺮﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮪ ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺣﺼﮧ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ 1896 ﺀ ﺳﮯ 1906 ﺀ ﺗﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺑﻌﺪﺍﺯﺍﮞ ﺩﻭ ﺩﻓﻌﮧ ﺻﺪﺭ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ 1903 ﺀ ﻣﯿﮟ ’’ ﺍﻧﺠﻤﻦ ﺗﺮﻕ ﺍُﺭﺩﻭ ‘‘ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺑﮭﯽ ﺭﮐﮭﯽ۔ 1900 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﯾﻮﭘﯽ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮﺳﺮﺭﺍﻧﭩﻮﻧﯽ ﻣﯿﮑﮉﺍﻧﻞ ﻧﮯ ﺻﻮﺑﮯ ﮐﯽ ﻋﺪﺍﻟﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﻓﺘﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺭﺍﺋﺞ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ’’ ﺍﺭﺩﻭ ﮈﯾﻔﻨﺲ ﺍﯾﺴﻮﺳﯽ ﺍﯾﺸﻦ ‘‘ ﮐﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﻭ ﻣﻨﻈﻢ ﮐﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﻝ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﮐﺎﻧﮕﺮﯾﺲ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺨﺖ ﺧﻼﻑ ﺗﮭﮯ۔ 16 ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ 1907 ﺀ ﮐﻮ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﻓﺮﻣﺎ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯽ ﮔﮍﮪ ﮐﺎﻟﺞ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺳﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺋﮯ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ حیدر آباد دکن کے فنانشل اور پولیٹیکل سیکرٹری تھے۔علی گڑھ کالج کے بھی سیکٹری رہے۔ مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ہیں۔ محمڈن ایجوکیشن کالج کی اہم مبلغ بھی۔ نواب صاحب کئی خصوصیات، وجاہت، ذہانت، خوش بیانی اور فیّاضی کے مالک تھے جن میں سب سے پہلا ذکر وجاہت کا ہے۔ محسن الملک ایک وجیہہ شخص تھے جس سے ملنے والا بہت جلد مرعوب ہو جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص ان سے کچھ دیر بات چیت کر لیتا تو ان کی خوش بیانی اور ذہانت و فیاضی کا قائل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مصنف اپنا فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ انسان کا نام رکھتے وقت اس کی خصوصیات اور خوبیوں کو نہیں دیکھا جاتا کیونکہ اس وقت ایسی خصوصیات سامنے ہی نہیں آتی۔ لہذا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نام کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور اس شخص میں خوبیاں اور خامیاں دوسری قسم کی ہوتی ہیں۔ وہ تمام لوگوں کے لیے اپنے دل میں ہمدردانہ جذبات رکھتے تھے اور ایک ہی ملاقات میں ان کو مرعوب کر دیتے۔ اسی لیے لوگ انہیں اپنا محبوب جانتے اور انہیں محسن الملک کہہ کر پکارتے۔ آپ نے عملی، تقریری اور تحریری ہر طرح سے اردو زبان کی خدمت کی۔
مسلم لیگ كا قیام
آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام 1906 میں ڈھاكہ كے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے ختم ہونے پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایک خصوصی اجلاس میں شركت كی۔ اجلاس میں فیصلہ كیا گیا كہ مسلمانوں كی سیاسی راہنمائی كے لیے ایک سیاسی جماعت تشكیل دی جائے۔ یاد رہے كہ سر سید نے مسلمانوں كو سیاست سے دور رہنے كا مشورہ دیا تھا لیكن بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایک سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقار الملك نے كی۔ نواب محسن الملك, مولانا محمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں٬ اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر سر آغا خان كو چنا گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔
اردو زبان کی خدمت
1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ مولانا حالی نے حیات جاوید میں سر سید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے خیال میں سرسید احمد نے 1867 میں ہی اردو ہندی تنازع کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علیحدہ ہو جانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ انہوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں لسانی خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور آگے چل کر مسلمانوں اور ہندوؤں کی راہیں جدا ہو جائیں گی۔
اردو زبان كی ترقی و ترویج كا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور یہ زبان جلد ہی ترقی كی منزلیں طے كرتی ہوئی ہندوستان كے مسلمانوں كی زبان بن گئی۔ اردو كئی زبانوں كے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لیے اسے لشكری زبان بھی كہا جاتا ہے۔ اس كی ترقی میں مسلمانوں كے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت كام كیا ہے۔ سرسید احمد خان نے بھی اردو كی ترویج و ترقی میں نمایاں كام كیا لیكن چونكہ ہندو فطری طور پر اس چیز سے نفرت كرتا تھا جس سے مسلمانوں كی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہٰذا ہندوؤں نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی۔
1867 میں بنارس كے چیدہ چیدہ ہندو رہنماؤں نے مطالبہ كیا كہ سركاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی كو یكسر ختم كر دیا جائے اور اس كی جگہ ہندی كو سركاری زبان كے طور پر رائج كیا جائے۔ ہندوؤں كے اس مطالبے سے سر سید احمد خان پر ہندوؤں كا تعصب عیاں ہو گیا اور انہیں ہندو مسلم اتحاد كے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے اس موقع پر آپ نے فرمایا كہ :
٫٫ مجھے یقین ہو گیا ہے كہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایک قوم كے كبھی نہیں ایک دوسرے كے ساتھ مل كر نہیں رہ سكتے۔٬٬
سرسید احمد خان نے ہندوؤں كی اردو زبان كی مخالفت كے پیش نظر اردو كے تحفظ كے لیے اقدامات كرنیكا ارادہ كیا۔1867 میں آپ نے حكومت سے مطالبہ كیا كہ ایک ٫٫ دار الترجمہ٬٬ قائم كیا جائے تاكہ یونیورسٹی كے طلباء كیلیے كتابوں كا اردو ترجمہ كیا جا سكے۔ ہندوؤں نے سرسید احمد خان كے اس مطالبے كی شدید مخالفت كی لیكن آپ نے تحفظ اردو كے لیے ہندوؤں كا خوب مقابلہ كیا۔ آپ نے الٰہ آباد میں ایک تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم كی اور سائنٹیفك سوسائٹی كے ذریعے اردو كی حفاظت كا بخوبی بندوبست كیا۔
ہندوؤں نے اردو كی مخالفت میں اپنی تحریک كو جاری ركھا۔ 1871 میں بنگال كے لیفٹیننٹ گورنر كیمبل نے اردو كو نصابی كتب سے خارج كرنے كا حكم دیا۔ ہندوؤں كی تحریک كی وجہ سے 1900 میں یو پی كے بدنام زمانہ گورنر انتھونی میكڈونلڈ نے احكامات جاری كئے كہ دفاتر میں اردو كی بجائے ہندی كو بطور سركاری زبان استعمال كیا جائے۔
اس حكم كے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900 كو علی گڑھ میں نواب محسن الملک نے ایک جلسے سے خطاب كرتے ہوئے حكومت كے اقدام پر سخت نكتہ چینی كی۔
اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن
نواب محسن الملک نے 1901 كو اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم كی جس كے تحت ملك میں مختلف مقامات پر اردو كی حمایت میں جلسے كئے گئے اور حكومت كے خلاف سخت غصے كا اظہار كیا گیا۔ اردو كی حفاظت كے لیے علی گڑھ كے طلباء نے پرجوش مظاہرے كئے جس كی بناء پر گورنر میكڈونلڈ كی جانب سے نواب محسن الملك كو یہ دھمكی دی گئی كہ كالج كی سركاری گرانٹ بند كر دی جائے گی۔
اردو كے خلاف تحریک میں كانگریس اپنی پوری قوت كے ساتھ شامل كار رہی اور اسے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔
اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشكار ہو گئی۔ اس تحریک كے بعد مسلمانوں كو اپنے ثقافتی ورثے كا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت كے تحفظ كے لیے متحد ہوئی۔
1900 میں یو پی کے لیفٹنینٹ گورنر سر انتھونی میکڈونلڈ نے اردو کے خلاف مہم شروع کی تو نواب محسن الملک نے اس کا جواب دینے کے لیے لکھنؤ میں ایک بڑا جلسہ کیا۔محسن الملک نے اس جلسے میں جس جوش و خروش سے تقریر کی۔ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یوں سمجھیے کہ الفاظ کا ایک لاوا تھا جو ابل ابل کر پہاڑ سے نکل رہا تھا۔ آخر میں نواب محسن الملک نے یہ کہتے ہیں کہ:
”اگر حکومت اردو کو مٹانے پر ہی تل گئی ہے تو بہت اچھا۔ہم اردو کی لاش کو گومتی دریا میں بہا کر خود بھی ساتھ ہی مٹ جائیں گے“
اور والہانہ انداز میں یہ شعر پڑھا۔
”چل ساتھ کہ حسرت دل محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے"
نواب محسن الملک نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ قیصر ندیم