7 جنوری آج شاعرِ 1oزبان و کثیراللسّان نواب گل محمد خان زیب مگسی کا یومِ وفات ہے
شعر و ادب کی دنیا میں شاید نواب گل محمد زیب مگسی واحد شاعر ہیں جنہوں نے 10 زبانوں میں شاعری کی ہے مختلف ادبا و دانشور اور محققین ڈاکٹر انعام الحق کوثر ، آغا نصیر خان احمد زٸی ، پروفیسر شرافت عباس ، ڈاکٹر معصوم کاسی اور فقیر پیر بخش چانڈکا و دیگر محققین کی تحقیق کے مطابق زیب مگسی نے جن 10 زبانوں میں شاعری کی ہے ان میں عربی ، فارسی ،اردو ،ہندی ، سندھی، بلوچی ، پشتو،براہوی ، پنجابی اور سراٸیکی شامل ہیں . زیب مگسی کی فارسی شاعری اپنے وطن بلوچستان ( پاکستان ) سے زیادہ ایران افغانستان ہندوستان اور تاجکستان میں مقبول ہے. وہ ایک قادرالکلام اور کثیراللسان شاعر تھے. فارسی شاعری میں ان کو شیخ سعدی کے ہم پلّہ شعرا میں شمار کیا جاتا ہے . ڈاکٹر معصوم خان کاسی کی اطلاعات اور تحقیق کے مطابق سوویت یونین سے آزاد ہونے والی مسلم ریاست تاجکستان کے تعلیمی اداروں میں شیخ سعدی کے گلستان و بوستان کے ساتھ ساتھ زیب مگسی کے پنج گلدستہ زیب کو بھی نصابی ادبیات کا حصہ بنایا گیا ہے یعنی ان کی شاعری بھی وہاں پڑھاٸی جا رہی ہے .
آغا نصیر خان احمد زٸی کی اطلاعات کے مطابق سندھی زبان میں زیب کے 1500 اشعار اور 176 کافیاں عربی میں 314 قصیدے اور غزلیں پنجابی اور سراٸیکی میں 250 کلام و اشعار اور ہندی میں 58 اشعار و غزلیں دستیاب ہیں جبکہ فارسی میں ان کے 30 ہزار کے لگ بھگ غزلیں قصیدے اور اشعار موجود ہیں . زیب نواب قیصر خان مگسی کے بڑے فرزند تھے زیب کے 2 چھوٹے بھاٸی یوسف علی خان اور محبوب علی خان تھے . زیب کے 3 فرزند عطا اللّٰہ خان نوراللّٰہ خان اور قیصر خان ہیں . یہ تینوں شہداد کوٹ سندھ میں رہاٸش پزیر ہوٸے . قیصر خان 1980 کی دہاٸی میں کراچی میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہو گٸے تھے . عطااللّٰہ خان گوشہ نشین ہوگٸے جبکہ نوابزادہ نوراللّٰہ خان نے قباٸلی شخصیت کی حیثیت سے بہت بڑا نام اور مقام حاصل کیا ہے اور سندھ میں ان کا بہت بڑا اثر و رسوخ اور احترام ہے تاہم وہ علم و ادب کے ذوق سے آشنا نہ ہو سکے . زیب ایک درویش صفت انسان تھے . چونکہ دنیاداری سے ان کو ویسے بھی خاص دلچسپی نہیں تھی اس لیٸے جب انگریز سرکار نے ان کو سرداری کے منصب سے ہٹانے کی سازش شروع کی تو انہوں نے مزاحمت کیٸے بغیر خود ہی نواب کے منصب سے علیحدگی اختیار کر لی جس کے باعث ان کے بھاٸی یوسف علی خان کو مگسی قبیلے کا نواب مقرر کیا گیا . یوسف علی خان ایک انقلابی سوچ کے حامل نوجوان رہنما ثابت ہوٸے .
انگریز سرکار نے اس سوچ کے تحت زیب کو نوابی منصب سے ہٹانا چاہا کہ وہ ایک روایتی نواب کی بجاٸے اصلاح پسند ، ترقی پسند اور اسلام پسند شخصیت ہیں جس ان کی سامراجیت کو خطرہ محسوس ہو رہا تھا لیکن نواب یوسف علی ان کی سوچ کے برعکس زبردست قسم کے انقلابی سردار ، شاعر ، ادیب ، دانشور ، سیاستدان اور صحافی ثابت نکلے اور بلوچ تاریخ کے اولین سیاسی قاٸد و رہنما اور مفکر بن کر تاریخ ساز شخصیت بن گٸے آج بھی بلوچستان کی قوم پرست تحریکوں کی بنیاد اور اساس نواب یوسف عزیز مگسی کی سوچ اور فکر ہے . یوسف علی شاعری میں عزیز کا تخلص استعمال کرتے تھے . مولانا ظفر علی خان جیسے ادیب شاعر سیاستدان اور صحافی نے بھی نواب یوسف عزیز مگسی کی تعریف اور توصیف میں اشعار کہے ہیں . زیب کے فکر و فن قدرت کلام اور علم و دانش کو دیکھتے ہوٸے ان کے لکھنٶ کے ہم عصر دانشور سید مظفر حسین نے ان کو ان القابات سے مخاطب کیا ہے ” ملک الشعرا و تاج الکملا گیلانی وقت و بدخشانی عصر و ہمدانی دہر وما زندارانی روزگار و خاقانی زمان عمدت الاعیان جناب سردار گل محمد خان المتخلص زیب“ اسی طرح ان کے ایک اور معاصر اور فارسی کے عالم و شاعر ابوالکمال سید محمد علی امید نے زیب کے مجموعے ” پنج گلدستہ“ کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے
صد گل معنی ز فیض گل محمد خان زیب
درشگفت و برد مید از گل زمین معنوی
رنگ اشعارش دہد از بلبل آمل نشان
طرز گفتارش بیادم طرز مولوی
زیب ایک صاحب طرز و صاحب دیوان ،قادرالکلام اور کثیراللسان شاعر تھے جن کی فارسی ، عربی، ہندی ، اردو، سندھی، پنجابی ، سراٸیکی اور بلوچی وغیرہ کے اشعار کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تاہم ان کے اب تک مطبوعہ اور معلوم کلام کی تفصیل کچھ اس طرح ہے پنج گلدستہ زیب 1931 کو لکھنٶ سے شایع ہوا جس میں 3385 فارسی کلام اور اشعار ہیں خزینت الاشعار جو کہ مخمصات پر مشتمل ہے یہ بھی نول کشور لکھنٶ سے 1936 میں شایع ہوا اس میں اشعار کی تعداد 4302 ہے ارمغانِ عاشقان یہ غیر مطبوعہ ہے اس میں 11000 کلام اور اشعار ہیں جبکہ بلوچستان کے سابق گورنر اور سابق وزیر اعلیٰ نواب ذوالفقار علی خان مگسی نے 1995 میں نواب گل محمد خان زیب کا ایک اور فارسی پر مشتمل شعری مجموعہ ”زیب نامہ“ پروفیسر شرافت عباس کی نگرانی میں کوٸٹہ شایع کروایا ہے جو خوب صورت ٹاٸیٹل کے ساتھ 361 صفحات پر مشتمل ہے یہ اس کا ایک نسخہ مجھے پروفیسر شرافت عباس صاحب نے بطور تحفہ عنایت فرمایا تھا . یہ ایک منفرد قسم کا شعری دیوان ہے جس میں ان کے علم عروض فنی مہارت کے عروج پر ہے . اس میں انہوں نے کٸی بحروں میں طبع آزماٸی کی ہے ان کی ایک غزل بحر رمل مثمن مخبون میں 16 ارکان پر مشتمل ہے جو میرے خیال میں طویل ترین بحر ہے
نواب گل محمد زیب کی سرداری سے دستبرداری کے باعث ان کے بھاٸی یوسف علی خان نواب مقرر ہوٸے مگر وہ سیاسی تحریک کی جدوجہد کے باعث شادی نہ کر سکے صرف 27 سال کی عمر میں ہی 1935 میں کوٸٹہ کے ہولناک زلزلے میں شہید ہو گٸے ان کی جگہ پر ان کے چھوٹے بھاٸی محبوب علی خان کو مگسی قبیلے کا نواب مقرر کیا گیا . مگسی قبیلے کے موجودہ نواب ذوالفقار علی ان کے پوتے اور نواب سیف اللّٰہ خان مگسی کے فرزند ہیں. محبوب علی خان کے پوتوں اور سیف اللّٰہ خان کے صاحبزادوں میں سے نواب ذوالفقار علی اور نوابزادہ نادر خان مگسی نے بڑی شہرت اور ناموری حاصل کی ہے تاہم ان کے دیگر برادران نوابزادہ طارق خان خالد خان عامر خان اکبر خان اور ظفر خان بھی بہت لاٸق اور فاٸق شخصیت کے حامل ہیں . زمانہ طالب علمی میں شہداد کوٹ میں میری گل محمد خان زیب کے فرزند نوابزادہ نوراللّٰہ خان مگسی اور نواب سیف اللّٰہ خان کے فرزند نوابزادہ نادر خان مگسی نیاز مندی رہی ہے لیکن تعلیم سے فراغت کے بعد میں ان سے رابطہ قاٸم نہ رکھ سکا اب اس تعلق کو 30 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے . نواب گل محمد خان زیب کا 7جنوری 1953 کو انتقال ہوا جن کو ان کے آباٸی شہر جھل مگسی میں سپردِ خاک کیا گیا. زیب کے فرزند نوراللّٰہ خان نے اپنے بڑے فرزند پر اپنے والد کا نام گل محمد زیب رکھا ہے جبکہ نواب ذوالفقار علی خان نے اپنے والد شہید نواب سیف اللّٰہ خان کا نام اپنے بڑے فرزند پر سیف اللّٰہ نام رکھا ہے. وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قانون دان ہیں سینیٹر اور نگران صوباٸی وزیر بھی رہ چکے ہیں . نواب گل محمد خان زیب کی ایک اردو غزل اور چند اشعار بطور نمونہ و یادگار قارٸین کی نذر ہیں
نہ لگتا گر خون سے دل تو یہ آزار کیوں ہوتا
نہ ہوتی آرزو دل میں تو دل پر بار کیوں ہوتا
جو ہیں زردار ان کے ہاتھ ہے اقرار یاری کا
تونگر ہم بھی ہوتے تو یہ انکار کیوں ہوتا
محبت کا نشہ غالب اگر ہوتا نہ زیب پر
گلے شیخ صنعان کے کہو زنار کیوں ہوتا
تعصب گر نہ کرتا فاضلوں کو فقر کا مل کر
قدم منصور کا سجادہ سے بردار کیوں ہوتا
ہمیں گر دیس میں کچھ قدر یا کچھ دسترس ہوتی
تو اس کا اس قدر پردیسیوں سے پیار کیوں ہوتا
فضیلت علم کی نافع اگر بن بخت کے ہوتی
تو فاضل زیب جیسا بے وطن بیکار کیوں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو برس تک سورج مشق دیکھنے کی کرے
تب ہو کوٸی قابل ترے رخسار کے دیدار کا
کون کس کا ہو سکے گا زیب تقلیدی یہاں
ہے نمونہ اپنا ہر اک شخص کی دستار کا
جانو شب جشن کو غنیمت کہ ایک دن
جانا ہے یہاں سے یوں کہ پھر نہ آیا جاٸے گا
باشدگانِ قصر فلک زیب کہتے ہیں
وہ کون ہے کہ جس کو گرایا نہ جاٸے گا
لکھوں اس شرط پہ خط میں اس سراپا سوزش کو
کہ پتھر کا ہو تختہ اور لوہے کا قلم میرا
بچ شرم سے ہی سکتے ہیں اس بت سے گمراہ
پہلے ہی کرشمے سے وہ لیتا ہے حیا لوٹ