آج 22 جنوری 2017ء معروف شاعر اور ہندوستانی فلموں کے گیت نگار، جناب نقش لائلپوری کا یومِ وفات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقش لائلپوری کا اصل نام جسونت رائے شرما ہے۔ وہ 24 فروری 1928ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر لائلپور (موجودہ فیصل آباد) میں ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ نقش کے والد انجینیئر تھے اور چاہتے تھے کہ انکا بیٹا بھی انجینیئر بنے، مگر نقش صاحب کو سائنس سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور اسی وجہ سے وہ ایک اچھے طالبعلم نہ تھے۔ وہ کم عمری ہی سے اردو ادب سے لگاؤ رکھتے تھے اور اسی شوق کی تکمیل کے لیے وہ لاہور چلے گئے جہاں انہوں نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور بہت جلد مقبول ہو گئے۔
تقسیمِ ہند کے بعد نقش اپنے خاندان کے ہمراہ لکھنؤ چلے گئے جہاں انکا دل نہ لگا۔ لکھنؤ سے وہ بمبئی (موجودہ ممبئی) چلے گئے جہاں انہوں نے محکمۂ ڈاک میں ملازمت کر لی لیکن جلد ہی اس زندگی سے اکتا گئے۔ بمبئی میں انکی ملاقات اداکار رام موہن سے ہوئی اور دونوں دوست بن گئے۔ رام موہن نے انکی ملاقات فلمساز جگجیت سیٹھی سے کروائی جن کی وجہ سے نقش صاحب کو فلم 'جگو' کیلئے گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اسکے بعد انہوں نے 'گھمنڈ'، 'رائفل گرل'، 'سرکس کوئین' اور 'چوروں کی بارات' جیسی فلموں میں گیت نگاری کی۔ انہوں نے اُس دور میں کئی پنجابی فلموں کیلئے بھی گیت لکھے تاہم وہ اپنے کام سے مطمئن نہ تھے۔ نقش صاحب کو اصل کامیابی 1970ء کی فلم 'چیتنا' سے ملی جسکا مکیش کی آواز میں گایا ہوا گیت 'میں تو ہر موڑ پر تجھ کو دوں گا صدا' بیحد مقبول ہوا۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے بے شمار فلموں کیلئے گیت لکھے جو اپنے دور میں سپرہٹ ثابت ہوئے۔ ان نغمات میں 'رسمِ الفت کو نبائیں تو نبھائیں کیسے' (فلم دل کی دھڑکن)، 'الفت میں زمانے کی' (فلم کال گرل)، 'یہ ملاقات اک بہانہ ہے' (فلم خاندان) اور 'نجانے کیا ہوا جو تُو نے چھو لیا' (فلم درد) جیسے سدا بہار نغمات شامل ہیں۔
22 جنوری 2017 کو نقش لائلپوری وفات پا گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر
عبدالحفیظ ظفر
ہندوستان اور پاکستان میں خاصی بڑی تعداد میں فلمی گیت لکھنے والے پیدا ہوئے اور اس حقیقت کی تائید کرنی چاہئے کہ کئی فلمیں اپنی خوبصورت گیتوں کی وجہ سے مقبول ہوئیں۔ کئی خوبصورت گیت لکھنے والوں کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ غزل کے بھی بہت اچھے شاعر تھے۔ ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے اوراس حوالے سے ان کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ہندوستان میں راجہ مہدی علی خان ، ساحر لدھیانوی، شکیل بدایونی، جانثار اختر، کیفی اعظمی اور حسرت جے پوری بے مثل نغمہ نگار تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے غزلیں اور نظمیں بھی لکھیں۔
اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ ہر اچھا غزل گو فلمی شاعری نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں قتیل شفائی، تنویر نقوی، سیف الدین سیف، حبیب جالب اور منیر نیازی نغمہ نگاری کے ساتھ شاعری میں بڑا نام تھے۔ انہوں نے نغمہ نگاری بھی کی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے شعری مجموعے بھی شائع کرائے۔ قتیل شفائی کے 22 شعری مجموعے ہیں اور انہوں نے فلمی گیت بھی تخلیق کئے۔ ان کے بے شمار گیت مقبول ہوئے۔ یہی سیف الدین سیف کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے، حبیب جالب اور منیر نیازی کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے اور انہوں نے غزل اور نظم کے میدان میں بھی اپنے آپ کو منوایا، اگرچہ انہوں نے بہت زیادہ فلمی گیت نہیں لکھے لیکن جتنے بھی لکھے وہ سب بہت اعلیٰ درجے کے تھے۔
ہندوستان میں ایک نغمہ نگار ایسا بھی تھا جس کا انداز سب سے الگ تھا۔ اس شاعر کو بھولا بسرا ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ جب بھی ہندوستان اور پاکستان کے فلمی گیت نگاروں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو نقش لائلپوری کا نام غائب ہوتا ہے۔ کیا یہ نا انصافی نہیں! اتنے اہم نغمہ نگار کو بھلا کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ وہ 24 فروری 1928 ء کو لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصلی نام جسونت رائے شرما تھا۔ انہوں نے غزلیں بھی لکھیں لیکن انہیں شہرت نغمہ نگاری سے ملی۔ ان کے والد مکینیکل انجینئر تھے اور چاہتے تھے ان کا بیٹا بھی انجینئر بنے۔ لیکن بیٹے نے اپنے والد سے اختلاف کیا اور دونوں باپ بیٹا کے تعلقات خراب ہو گئے۔ نقش لائلپوری کی والدہ اس وقت چل بسیں جب ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ ان کے والد نے دوسری شادی کر لی۔ بس وہیں سے باپ بیٹا کے اختلافات شروع ہوئے۔ 1916 ء میں نقش لائلپوری لاہور آگئے اور کام کی تلاش شروع کر دی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اور ان کا خاندان لکھنؤ چلا گیا۔ جسونت رائے شرما نے اپنا فلمی نام نقش لائلپوری رکھ لیا۔ 1950 ء میں نقش لائلپوری نے فلمی گیت لکھنے کیلئے ممبئی کا رخ کیا۔ یہاں ان کی ملاقات اداکار اور ہدایتکار جگدیش سیٹھی سے ہوئی انہوں نے نقش لائلپوری کی شاعری سنی اور پھر ان سے کہا گیا کہ وہ ان کی اگلی فلم ’’جگو‘‘ کے نغمات لکھیں۔ اس فلم کے گیت ہٹ ہوئے اور خاص طور پر یہ نغمہ ’’اگر تیری آنکھوں سے آنکھیں ملا دوں‘‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ 1970 ء تک نقش لائلپوری بالی وڈ میں اپنے قدم جمانے کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ موسیقار جے دیو نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ٹی وی سیریل کیلئے گیت لکھیں۔ نقش لائلپوری کو اپنی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میری امیدوں کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔ انہیں مختلف ڈرامہ سیریلز کے گیت لکھنے کیلئے کہا گیا، سب سے پہلے انہوں نے ڈرامہ سیریل ’’سری کانت‘‘ کیلئے نغمات تحریر کئے۔ انہوں نے 50 ڈرامہ سیریلز کیلئے گیت تحریر کئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 50 پنجابی فلموں کے نغمات بھی لکھے۔ انہوں نے جن شاعروں کے ساتھ کام کیا ان میں سے مدن موہن ، جے دیو، خیام، سپن جگ موہن، نوشاد، ہنس راج شامل ہیں۔ پنجابی فلموں کیلئے انہیں سریندر کوہلی، وید سیٹھی اور حسنی لال بھگت رام جیسے سنگیت کار ملے۔ نقش لائلپوری کی معروف ہدایتکار بی آر چوپڑہ کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ ان کی فلم ’’چیتنا‘‘ کیلئے نقش لائلپوری نے گیت تحریر کئے۔
یہ 1970 ء کی بات ہے۔ انہوں نے یہ کوشش کی کہ فلمی نغمات کی زبان سادہ ہو۔
اب ان اہم فلموں کا تذکرہ ہوگا جن کیلئے نقش لائلپوری نے گیت تحریر کئے۔
جگوّ، چوروں کی بارات، چیتنا، سرکس کوئین، گووندا، خاندان، درد، دل ناداں، تمہارے لئے، کاغذ کی نائو، دل کی راہیں، حناہ اور یاترا شامل ہیں
اب ہم ان کے چند نغمات کا ذکر کریں گے۔
1 آبھی جا دلدار …… فلم تاج محل –
2 آجا آجا کھو دیئے ہیں …… فلم تیری تلاش میں –
3 اے میرے ہم نوا تو نہیں جانتا …… فلم الہ دین اور حیران کن چراغ –
4 بن بلائے ہم چلے آئے …… فلم آہستہ آہستہ –
5 میں تو ہر موڑ پر …… فلم چیتنا –
6کھلی وادیوں کا سفر ہے …… فلم آئے گا آنے والا –
7 پوجھا جو پیار کیا ہے …… فلم رانو مکھر جی –
8 نہ جانے کیا ہوا …… فلم درد –
9 پیار کا درد ہے …… فلم درد –
10 یہ وہی گیت ہے …… فلم مان جائیے
نقش لائلپوری 22 جنوری 2017 ء کو چل بسے۔ فنکار دنیا چھوڑ جاتا ہے لیکن اپنے شاندار کام کی وجہ سے اس کا کام زندہ رہتا ہے، نقش لائلپوری نے اپنے فن کے جو نقوش چھوڑے ان کی وجہ سے ان کا نام زندہ رہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام ہونٹوں پہ ترا آۓ تو راحت سی ملے
تو تسلی ہے دلاسہ ہے دعا ہے کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ انجمن یہ قہقہے یہ مہوشوں کی بھیڑ
پھر بھی اداس پھر بھی اکیلی ہے زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں سدا مسکراتے رہو
زندگی میں سدا مُسکراتے رہو
فاصلے کم کرو دل ملاتے رہو
درد کیسا بھی ہو آنکھ نم نہ کرو
رات کالی سہی کوئی غم نہ کرو
اک ستارہ بنو، جگمگاتے رہو
زندگی میں سدا مُسکراتے رہو
بانٹنا ہے اگر بانٹ لو ہر خوشی
غم نہ ظاہر کرو تم کسی پہ کبھی
دل کی گہرائی میں غم چھپاتے رہو
زندگی میں سدا مُسکراتے رہو
اشک انمول ہیں، کھو نہ دینا کہِیں
ان کی ہر بُوند ہے موتیوں سے حسِیں
ان کو ہر آنکھ سے تم چُراتے رہو
زندگی میں سدا مُسکرا تے رہو
فاصلے کم کرو دل ملاتے رہو
زندگی میں سدا مُسکراتے رہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
دھڑکنیں دھڑکنوں میں کھو جائیں
دل کو دل کے قریب لانا ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
میں ہوں اپنے صنم کی بانہوں میں
میرے قدموں تلے زمانہ ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
خواب تو کانچ سے بھی نازک ہیں
ٹوٹنے سے انہیں بچانا ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
مَن میرا پیار کا شِوالا ہے
آپ کو دیوتا بنانا ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود