سید فخر الدین بلے 15دسمبر 1930ء کو میرٹھ میں پیداہوئے۔
انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم ایس سی کی۔
فخرالدین بلے نے تحریک پاکستان میں بھی بھرپورحصہ لیا۔
علی گڑھ میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔فخرالدین بلے اطلاعات ، تعلقات عامہ ، سیاحت ،آرٹس کونسل ،سوشل ویلفیئر ، وزارت مذہبی امور اور سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ادیبوں ،شاعروں اور دانشوروں کی سرگرمیوں کے لئے قافلہ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے پڑاﺅ لاہور ،ملتان اوربہاولپورمیں ہوتے رہے ۔انہوں نے مختلف سرکاری اور غیرسرکاری جرائد کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیئے جن میں ماہنامہ جھلک، روزنامہ نوروز کراچی ، بہاولپور ریویو، ماہنامہ اوقاف، ہم وطن ،یاران وطن، نوائے بلدیات ،لاہورافیئر ، 15روزہ مسلم لیگ نیوز اورہمارا ملتان قابل ذکرہیں ۔
وہ 28جنوری 2004ءکو دل کا دورہ پڑنے سے ملتان میں انتقال کرگئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فخر الدین بلّے ایک تہذیب ساز ہستی
تحریر: اصغر ندیم سید
ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی چراغ علی گڑھ میں روشن ہو اور اس کی روشنی دور تک نہ پھیلے۔ کچھ ایسا ہی میرا تجربہ ہے کہ جو شخصیات علی گڑھ کی علمی اور تہذیبی فضا میں سانس لے لیتی ہیں، وہ دنیا میں کہیں بھی آباد ہو جائیں اپنے ساتھ وہی شرافت، دیانت، متانت، ذہانت اور تہذیبی اقدار لیکر جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت فخر الدین بلّے صاحب کی ہے۔ ملتان اور لاہور کے قیام کے دوران میرا ان سے گہرا تعلق قائم رہا۔ وہ مجھ پر شفقت اور لطف و کرم کے کئی انداز آزماتے رہتے تھے۔ لب و لہجہ انتہائی مربیانہ ہوتا تھا اور حقیقی معنوں میں میری اور میرے ساتھ کے لوگوں کی سرپرستی میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھتے تھے۔ گویا یہ ان کے مزاج اور شخصیت کا حصہ تھا۔ ایسے لوگ دوبارہ کسی معاشرے، کسی تہذیب کو نصیب نہیں ہونگے، جن کے مزاج میں فنون لطیفہ کا رچاﺅ اپنا معجزہ دکھاتا تھا۔
سید فخر الدین بلّے سے میری ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب وہ محکمہ اطلاعات کے افسر اعلیٰ بن کر ملتان میں تعینات ہوئے۔ میں کالج کا طالب علم تھا، میرے ساتھ کالج کے وہ دوست جو علم و ادب سے دلچسپی رکھتے تھے اور شاعری، افسانہ نگاری اور کالم نگاری میں کچھ نام بنانا چاہتے تھے ۔ اکثر ان کے دفتر حاضری دیا کرتے تھے، حسن پروانہ روڈ پر ان کا دفتر ہوتا تھا۔ اسی سڑک پر روزنامہ ”امروز“ کا دفتر بھی تھا جو اس علاقے کا سب سے مقبول واحد اخبار تھا اور ترقی پسند نظریات کا حامل تھا۔
اس اخبار کے ایڈیٹر مسعود اشعر تھے جو اردو کے صف اول کے جدید افسانہ نگار ہیں۔ مسعود اشعر الہ آباد (انڈیا) کے رہنے والے ہیں، اس لئے ان میں بھی مشرقی اقدار بدرجہ اَتم موجود ہیں۔ اکثر ہم طالب علم ان کے دفتر جا کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے۔ وہاں اکثر سید فخر الدین بلّے صاحب بھی آیا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ پروفیسر عرش صدیقی، پروفیسر نذیر احمد اور پروفیسر فرخ درانی بھی آیا کرتے تھے۔ اکثر ان صاحبان کی موجودگی میں ادبی نشست بن جاتی تھی۔ ہم ان کی باتیں سن کر اپنے ذوق کی تربیت کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ یہ سب ادیب اور شاعر کلاسیکی ادب کا گہرا شعور اور ذوق رکھتے تھے۔ ان سب میں سید فخر الدین بلّے صاحب کی شخصیت من موہنی تھی، چونکہ وہ ہمارے استاد نہیں تھے۔ اس لئے ہمیں ان سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ وہ دوستانہ انداز سے ہمیں اکثر اپنے دفتر لے جاتے تھے۔ ان کے دفتر کا ماحول عام سرکاری دفاتر سے قطعاً مختلف ہوتا تھا۔ وہ لگتا تھا ان کی لائبریری یا ان کے لکھنے کا کمرہ ہے۔ اس لئے کہ اس میں بے شمار کتابیں اور لکھنے پڑھنے کا پورا ماحول ہوا کرتا تھا۔ہر طرف کتابیں بکھری ہوتی تھی۔ ایک طرف بڑی میز پر چائے کا ساز و سامان رکھا ہوتا تھا۔ اکثر بلے صاحب خود چائے بنا کر پیش کرتے تھے۔ کھانے پینے کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ بے حد وسیع دل و دماغ کے مالک تھے اور ان کا دستر خوان ان کی آخری سانس تک بے حد وسیع رہا۔ دوستدار انسان تھے اور ہر طبقہ کے افراد سے ان کا گہرا تعلق تھا ۔ سیاست، تجارت، ثقافت اور زندگی کے دیگر شعبوں کے افراد ان کے پاس آیا کرتے تھے اور وہ ان سب سے مروت و اپنائیت سے ملا کرتے تھے۔
چونکہ میرا گھر ان کے دفتر سے زیادہ دور نہیں ہوا کرتا تھا۔ میں اپنی سائیکل پر پہنچ جاتا تھا اور پھر کوئی نہ کوئی ملاقاتی وہاں موجود ہوتا تھا یا آ جایا کرتا تھا ۔وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ محفل آرائی اور مجلسی ماحول انہیں بے حد پسند تھا۔ وہ سرکاری کام بھی ساتھ ساتھ نمٹاتے جاتے تھے اور نوجوانوں کی تربیت ایک غیر محسوس طریقے سے کئے جاتے تھے۔ کبھی کوئی غزل سناتے اور اس پر بحث شروع کر دیتے تھے ۔کبھی اپنے مطالعے کے حاصل سے ہماری رہنمائی کرتے تھے، کبھی اپنے ہم عصروں کی لکھی چیزوں پر رائے دیتے تھے۔ اس طرح وہ اپنے مطالعے میں ہمیں شامل کر لیتے تھے۔ جو کچھ ہم کالج میں نہیں سیکھ سکتے تھے وہ سید فخر الدین بلّے صاحب informal
یعنی غیر رسمی طریقے سے سمجھا دیتے تھے۔
سید فخر الدین بلّے بے حد خوش لباس اور جاذب ِ نظر شخصیت کے مالک تھے ، اوپر سے اللہ نے انہیں گداز سے بھری آواز عطا کی تھی۔ وہ بولتے تو لگتا کوئی محبت سے تھپکیاں دے رہا ہے۔ اکثر سفید رنگ کا لباس پہنتے تھے۔ شیروانی پاجامہ ان پر بہت سجتا تھا۔ علی گڑھ والوں کے لباس سے انہیں محبت تھی۔ اس لئے انہوں نے وہی مزاج اپنائے رکھا۔ ملتان میں دو نسلوں کی تربیت تو میرے تجربے کا حصہ ہے۔ اس دوران ان کی شاعری اور نثر مختلف رسالوں میں شائع ہوتی رہی اور ہم پڑھتے رہے، طفیل ہوشیارپوری نے ان کے ایک شعر کو ان کی زندگی کی کلید کے طور پر دیکھا ہے۔ میں بھی ان کا ہمنوا ہوں۔
بلّے صاحب کی تعلیم سائنس کے مضامین میں تھی، لیکن انہوں نے سائنس سے سائنسی شعور لے کر ادب و شعر کو دریافت کرنے کو اپنی تخلیقی زندگی بنا لیا۔ میں نے شروع میں لکھا ہے کہ وہ ایک مکمل تہذیبی شخصیت تھے۔ اس سے میری مراد یہ تھی کہ وہ مذہب، تصوف، اخلاقیات ، سماجیات، نفسیات، ادب اور فنون لطیفہ سے یکساں جذباتی رشتہ رکھتے تھے۔ ان کے کام کا دائرہ بے حد وسیع ہے، مذہب اور عقیدے کے ذیل میں مولاعلیؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے علم اور تفکر اور فلسفے کو سمجھنے کی انہوں نے بھر پور سعی کی۔ اگرچہ مولاعلی کرم اللہ وجہہ کے علم اور فکر کو سمجھنے کے لئے صدیوں کی ریاضت کم ٹھہرتی ہے کہ جو تفصیل آپ کی ذات والاصفات سے منسوب ہے، وہ تہہ در تہہ علم کے آفاقی تصورات کو جنم دیتا ہے۔ کہاں ہم کہاں وہ۔ ایسے ہے جیسے سمندر کی وسعت کا اندازہ لگانا۔ فخر الدین بلّے نے اپنی عقیدت کے پھول تو نچھاور کئے۔ حضرت مولاعلی کرم اللہ وجہہ کے کلام اور بلاغت کو صرف چوم لینا ہی بہت بڑی عبادت اور ریاضت ہے، بلے صاحب نے اس کو محسوس ضرور کیا ہے اور شاید اس کی وجہ مشتاق معینی بہتر طریقے سے بتا رہے ہیں۔
” سید فخر الدین بلّے کا سلسلہ نسب خواجہ غریب نواز سے ہوتا ہوا، مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ بلے صاحب سماع کے دلدادہ اور قوالی کے رسیا تھے۔“
یقینا سید فخر الدین بلّے اجمیر شریف سے لیکر حضرت نظام الدین اولیاءتک پھیلے فیض سے جڑے ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز اور حضرت امیر خسرو کی روایت سے جذباتی اور روحانی طور پر رچے ہوئے تھے۔ میں نے اور میرے دوستوں نے فخر الدین بلے کی صحبت میں ان تمام نشانیوں کو بھانپ لیا تھا۔ اس لئے مجھے بہت روحانی سرور ملتا تھا جب ہم ان کے آس پاس بیٹھے ہوتے تھے۔ مجھے ان کی شاعری کا تجزیہ نہیں کرنا۔ کیونکہ نقاد اکثر تجزیہ کرتے ہوئے اپنی ذات اور جذبات سے عاری ہو جاتے ہیں اور ایک پیشہ ورانہ میکانکیت کے سہارے خوامخواہ کی بحثوں میں الجھے رہتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے انہوں نے شاعری کو اخلاقی قدروں کی ترویج کے لئے استعمال کیا۔ شاعری کا بنیادی کردار انسان کی حسیات اور روحانی کیفیات کی ترویج و تہذیب ہوتا ہے۔ اس لئے مذہب اور عقیدے کو اس میں مرکزی حیثیت حاصل ہوا کرتی ہے۔ بلے صاحب نے اسی سے اپنی شعری کائنات بنائی ہے۔
لاہور میں 1980ءمیں آگیا تھا اور اپنی ملازمت کے حوالے سے شکر گڑھ اور شیخوپورہ میں سزا کاٹ رہا تھا۔ سزا یہ تھی کہ ضیاءالحق کے مارشل لاءمیں ترقی پسند لکھنے والوں کو ان کے شہروں سے نکال کر شہر بد ر کیا گیا۔ ان میں مسعود اشعر ملتان سے لاہور آگئے اور میں شکر گڑھ کالج میں تبدیل ہوگیا۔ یہ پاکستان کا ایک سرحدی شہر ہے جو گرداسپور اور جموں کے کنارے آباد ہے ۔اس کے بعد میں لاہور آگیا اور لاہور کی تہذیبی زندگی میں گم ہوگیا۔ اس دوران سید فخر الدین بلّے صاحب کے متعلق معلوم ہوتا رہا کہ وہ کہاں کہاں کی خاک چھان کر لاہور میں آ چکے ہیں۔ اب پھر سے ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ جی او آر تھری میں سرکاری رہائش گاہ میں مقیم تھے۔اب ان کے بیٹے بھی جوان ہو چکے تھے۔ آنس معین مرحوم سے تو میں مل چکا تھا۔ پھر ظفر معین سے تعلق قائم ہوا جو اب تک ہے وہ ایک بے حد حساس نوجوان ہے اور اب تو وہ صحافت اور تدریس میں قدم رکھ چکا ہے۔
سید فخر الدین بلّے نے لاہور میں ہم خیال دوستوں اور ادیبوں کی ایک انجمن بنائی۔ جس کے ماہوار اجلاس ان کے گھر پر ہوا کرتے تھے۔ اس میں شہر کے چیدہ چیدہ ادیب شاعر جمع ہوا کرتے تھے۔ ان میں مجھے یاد ہے ڈاکٹر وحید قریشی، انور سدید، ڈاکٹر سلیم اختر، احمد عقیل روبی، سائرہ ہاشمی، اسلم کمال، حسن رضوی، سرفراز سید، ذوالفقار تابش اور کچھ لوگ مستقل آنے والوں میں شامل تھے۔ مجھے بھی باقاعدگی سے دعوت ملتی تھی۔ کبھی کبھی میں نہیں جا پاتا تھا لیکن اکثر میری حاضری ہوتی تھی۔ دو تین دفعہ میں نے افسانہ اور نظمیں بھی پیش کیں۔ یہاں تواضع کے لئے انواع و اقسام کی لذیذ ڈشیں دستر خوان کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ خاص طور پر حلیم تو ان کے ہاں بہت لذیذ بنا کرتی تھی۔ انہیں مہمان نوازی کا اتنا شوق تھا کہ بس نہیں چلتا تھا روزانہ دوستوں کی دعوت کریں۔ شہر میں ان کے بہت سے شاگرد تھے اور طلباءان کے پاس موجود لائبریری اور مختلف نادر کتابوں اور مسودوں سے فیض یاب ہوا کرتے تھے۔ وہ خود طلباءکی رہنمائی کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ ان کے پاس ایسا مخطوطہ ہے جو کہیں اور دستیاب نہیں ہے۔
سید فخر الدین بلّے نام و نمود اور شہرت کی طرف کبھی خود نہیں لپکے۔ اس لئے مشاعروں کے بے حد مقبول شاعر طفیل ہوشیار پوری کی رائے ہے کہ وہ ہمیشہ مشاعروں سے دور رہے، اسی طرح ان کی رائے ہے کہ تصوف میں آپ کے خاص رجحان کی وجہ سے پیر حسام الدین راشدی، نامور مستشرقہ این ای میری شمل اور ڈاکٹر وزیر آغا نے انہیں تصوف پر اہم اتھارٹی قرار دیا ہے۔
ان کی غزلوں میں بھی تصوف کی جھلکیاں کہیں نہ کہیں موجود ہیں، چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
نہ آئینے کا بھروسہ نہ اعتبار نظر
جو روبرو ہے مرے کوئی دوسرا ہی نہ ہو
یوں لگی مجھ کو خنک تاب سحر کی تنویر
جیسے جبریل نے میرے لئے پر کھولے ہیں
ہے ردا پوشی مری دنیا دکھاوے کے لئے
ورنہ خلوت میں بدلنے کو کئی چولے ہیں
انا کا علم ضروری ہے بندگی کے لئے
خود آگہی کی ضرورت ہے بے خودی کے لئے
ہے ایک قطرۂ خود نا شناس کی طرح
یہ کائنات مِری ذات کے سمندر میں
میں کیا بتاﺅں کہ قلب و نظر پہ کیا گزری
کرن نے قطرہ ¿ شبنم میں جب شگاف کیا
ازل سے عالم ِ موجود تک سفر کر کے
خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
خدا گواہ کہ میں نے خود آگہی کے لئے
سمجھ کے خود کو حرم عمر بھر طواف کیا
رہیں گے قصرِ عقائد نہ فلسفوں کے محل
جو میں نے اپنی حقیقت کا انکشاف کیا
اپنے اپنے دور کے عالموں اور صاحب بصیرت ادباءنے سید فخر الدین بلّے کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوﺅں کو سراہا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ بے حد ملنسار اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ یہی خوبیاں ان کے کلام میں ظاہر ہوتی ہیں ،ان کے بچوں میں ظفر معین بلے میرے بہت قریب ہیں اور ان کی وساطت سے پتہ چلتا رہتا ہے کہ وہ میرے ڈراموں کو شوق سے دیکھتے ہیں۔ خود سید فخر الدین بلّے صاحب کو ئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اور کسی نہ کسی بہانے میری تعریف کیا کرتے تھے۔ میں اگرچہ ان کی رائے کو اپنے حق میں دُعا تصور کرتا تھا اور خود کو اس تعریف کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔
بلے صاحب کی زبان کی چاشنی ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوئی ہے، وہ جب بات کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے سید فخر الدین بلّے گفتگو کر رہے ہیں۔ پورا گھرانہ ادب دوست اور علم دوست ہے ۔ جب تک حیات رہے آخری سانس تک میل ملاقات اور مہر و التفات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا رہا۔ میں تو ان کی محبت کا قرض نہیں اتار سکتا کہ بیس سال کی عمر سے میں ان کے ساتھ رہا ہوں۔ آخری وقت تک میرا ان سے رابطہ رہا۔ اس رفاقت کا سفر اچانک ختم ہوگیا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔