یاسؔ یگانہ کا نام تو بہت ہی طویل ہے ،یعنی مرزا واجد حسین یاس ؔیگانہ چنگیزی لکھنوی ثم عظیم آبادی،لیکن اُن کو اپنے یکتا ہونے کا احساس تھا، اسی لیے اُنھوں نے لکھا:
کلامِ یاسؔ سے دنیا میں ایک آگ لگی
یہ کون حضرتِ آتشؔ کا ہم زباں نکلا
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یگانہؔ اپنی شاعری میں یگانہ تھے۔ اُنھوں نے ہمیشہ وہ راہ ترک کر دی، جو پہلے سے مستعمل تھی۔ اس لیے لکھنؤ سکول میں آتشؔ کے بعد یگانہؔ ہی سب سے منفرد شاعر ہیں، جن کی آواز سب سے الگ محسوس ہو تی ہے۔
یاسؔ یگانہ کی پیدائش 17 اکتوبر 1884ء کو پٹنہ میں ہوئی تھی، جسے اُس زمانے میں عظیم آباد کہا جاتا تھا۔ وہ خود اپنی جائے پیدائش کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’شہر عظیم آباد محلہ مغلپورہ میرا مولد ہے، جو تیموریوں، چغتائیوں اور قزلباشوں کا مسکن تھا۔ جہاں اعلیٰ درجے کے مہذب، اُمراء، شرفاء بستے تھے‘‘۔
یاسؔ یگانہ نے ابتدائی تعلیم مغلپورہ کے ایک مدرسے میں حاصل کی تھی اور انگریزی تعلیم کے لیے عظیم آباد کے مشہور و معروف محمڈن اینگلو عریبک سکول پٹنہ میں داخل ہوئے۔ خدا داد صلاحیت اور فطری ذہانت کے سہارے سکول کے درجات میں وہ اوّل آتے اور وظیفے، تمغے اور انعامات پاتے رہے۔ وہیں سے اُنھیں مذاقِ شعر و سخن کی بھی تربیت ملی اور بیتاب ؔعظیم آباد ی سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ یاسؔ یگانہ نے 1903ء میں کلکتہ یونی ورسٹی سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا ،جس کے بعد فکر ِمعاش نے اُنھیں آن گھیرا اور اُنھیں دَر دَر کی خاک چھاننی پڑی، چوں کہ اُن کی شادی لکھنؤ میں ہوئی تھی، اس لیے وہ وہاں جا بسے، لیکن یہاں اُنھیں جو تکلیفیں اُٹھانی پڑیں، اُس کا بیان مشکل ہے حالاں کہ وہ خود ہی کہتے ہیں:
لکھنؤ کے فیض سے ہیں دو دو سہرے میرے سر
اک تو اُستاد یگانہؔ دوسرے داماد ہوں
یاسؔ یگانہ کا کلام اُن کے مختلف مجموعوں اور اس زمانے کے رسالوں میں بکھرا ہوا تھا۔ اُن اوراقِ لخت لخت کو نام وَر محقق مشفق خواجہ نے اکٹھا کر 2003ء میں کلیاتِ یگانہ کو شائع کیا، جس نے یگانہؔ کی شاعرانہ شخصیت کی بازیافت میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
یگانہ کا انتقال چار فروری کی صبح لکھنؤ میں ہوا۔ لیکن ان کی زندگی کا یہ باب اتنا المناک ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں دوارکا داس شعلہ نے لکھا ہے:
آخری وقت میں مرزا صاحب پیلا مکان شاہ گنج لکھنؤ میں بالکل تنہا تھے۔ یعنی ملازم اور سسرالی اعزا کے سوا بیوی، بچوں میں سے کوئی بھی آس پاس نہیں رہ گیا تھا۔ عارضہٴ دمہ کے سبب ان کی سانسیں اکھڑی اکھڑی رہتی تھیں، پیروں پر ورم آگیا تھا اور ان کو کامل یقین ہو چکا تھا کہ اب وہ جادہٴ زندگی کی آخری منزل میں ہیں۔‘
تین فروری کی شب 11 بجے مرزا صاحب نے چائے طلب کی کچھ دیر بعد تھوڑا سا پانی پیا اور بستر پر دراز ہو گئے۔ چار فروری کی صبح جب ملازم کی اچانک چیخ گونجی تو مرزا نقوی اور دیگر لوگوں کو مرزا صاحب کی موت کا علم ہوا۔ موت کے صحیح وقت کا علم کسی کو بھی نہ ہو سکا۔ ان کی وفات چار فروری سنہ 1956کو ہوئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 73سال تھی۔
اگرچہ مرزا صاحب کی موت کو صیغہٴ راز میں رکھا گیا تھا اس کے باوجود مخالفین کو خبر ہو ہی گئی اور وہ لوگ تجہیز و تکفین میں رخنہ اندازی کرنے لگے۔ غسال کو غسل دینے سے منع کر دیا گیا، کربلا کے متولی کو قبر کی زمین دینے سے روکا گیا اور مولانا محمد سعید صاحب نے یہ فتویٰ بھی جاری کر دیا تھا کہ یگانہ کے جنازے میں شرکت ناجائز ہے۔
بہر حال کسی طور پر جنازے کو غسل دیا گیا اور مولوی احمد علی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جنازے میں کل چھ افراد شریک تھے۔ یاس یگانہ کو لکھنؤ والوں کے سلوک کا اندازہ تھا اسی لیے انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا:
مزار یاس پہ کرتے ہیں شکر کے سجدے
دعائے خیر تو کیا اہل لکھنؤ کر تے
یاس یگانہ کا مزار ان کی بیٹی مریم جہا ں نے پختہ بنوا دیا تھا، جس پر ان کا یہ شعر لکھا ہوا ہے:
خود پرستی کیجیئے یا حق پرستی کیجیئے
آہ کس دن کے لیے ناحق پرستی کیجیئے
یاس یگانہ نے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں جو مصیبتیں اٹھائیں وہ بہت کم ادبا و شعرا کے حصے میں آئی ہوں گی۔ اس کے باوجود یگانہ نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا۔
یاسؔ یگانہ زندگی بھر ایک متنازع شخصیت رہے اور اُن کی طبیعت بھی کچھ ایسی تھی کہ وہ خود بھی ہنگاموں میں گھرا رہنا پسند کرتے تھے۔ لکھنؤ کے شعرا سے معرکہ آرائیوں کے علاوہ اُنھوں نے غالبؔ کی مرمت کرنا بھی مناسب سمجھا۔
بات صرف زبانی کلامی یا اکا دکا مضامین ہی پر ختم نہیں ہوئی بل کہ یگانہ نے ’’غالبؔ شکن‘‘ کے نام سے باقاعدہ کتاب بھی لکھی۔ اس کتاب کا غالبؔ کی مقبولیت پر تو کیا اثر ہوتا، خود یگانہؔ کی مخالفت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔
بقول یگانہؔ:
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
تاہم مذکور تمام تر ہنگامہ خیزی کے باوجود جدید دَور میں یگانہؔ کے ادبی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے اور آج اُن کو بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے کے اہم ترین شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ٭…٭…٭
بشکریہ سید کاظم جعفری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی حوالے سے ایک اور تحریر ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یگانہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن جب وہ پچھلی صدی کے اوائل میں عظیم آباد سے ہجرت کر کے لکھنؤ آئے تو لکھنؤ والوں نے ان کی بالکل ہی قدر نہ کی۔ اس وقت لکھنؤ والے اپنے برے سے برے شاعر کو بھی باہر والے اچھے سے اچھے شاعر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے اور یگانہ چونکہ "باہر والے" تھے سو لکھنؤ والوں کو ایک آنکھ نہ بھائے۔ بقول مجنوں گورکھپوری، "لکھنؤ کے لوگوں میں اتنا ظرف کبھی نہ تھا کہ کسی باہر کے بڑے سے بڑے شاعر کو لکھنؤ کے چھوٹے سے چھوٹے شاعر کے مقابلے میں کوئی بلند مقام دے سکیں۔" (غزل سرا، نئی دہلی 1964ء بحوالہ چراغِ سخن از یگانہ، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، 1996ء)۔
اور یہیں سے یگانہ اور لکھنؤ کے شعرا کے درمیان ایک ایسی چشمک شروع ہو گئی جو یگانہ کی موت پر بھی ختم نہ ہوئی، مزید برآں یہ کہ اس وقت لکھنؤ کے شعرا غالب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور اپنے ہر اس شاعر کو مسندِ علم و فضل پر بٹھا دیتے تھے جو غالب کے رنگ میں کہتا تھا چاہے جتنا بھی برا کہتا تھا سو یگانہ کی اپنی محرومی کے سبب غالب سے بھی دشمنی پیدا ہو گئی اور آخری عمر تک غالب کے کلام میں نقص تلاش کرتے رہے اور انکا اظہار کرتے رہے۔
لیکن ہمیشہ کی طرح، ادبی چشمکوں میں صرف دھول ہی نہیں اڑتی اور کاغذ سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے منہ پر صرف سیاہی ہی نہیں ملی جاتی بلکہ ان چشمکوں سے کچھ ایسے نوادر کا بھی ظہور ہوتا ہے جو شاید عام حالات میں کبھی مسندِ شہود پر نہ آتے اور انہی میں یگانہ کی علمِ عروض پر لازوال اور "اتھارٹی" کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب "چراغِ سخن" ہے جو انہیں معرکوں کی یادگار ہے جس کے سرورق پر مرحوم نے لکھا تھا۔
مزارِ یاس پہ کرتے ہیں شُکر کے سجدے
دعائے خیر تو کیا اہلِ لکھنؤ کرتے
کاغذوں پر سیاہی خیر ملی ہی جاتی ہے، لیکن اس مظلوم الشعرا کے ساتھ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا کہ کسی اہلِ قلم کے ساتھ نہ ہوا ہوگا۔ انہوں نے ایک اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں ایک فرقے کے خلاف کچھ تند و تیز و متنازعہ جملے تھے سو قلم کی پاداش میں دھر لیے گئے، جس محلے میں رہتے تھے وہاں اسی فرقے کی اکثریت تھی، اور چونکہ تھے بھی بے یار و مددگار، سو اہلیانِ محلہ نے پکڑ لیا، منہ پر سیاہی ملی، جوتوں کا ہار پہنایا، گدھے پر سوار کیا اور شہر میں جلوس نکال دیا۔
مدیر نقوش، محمد طفیل نے یگانہ سے ان کے آخری دنوں میں ملاقات کی تھی، اس ملاقات کی روداد انہوں نے اپنی کتاب "جناب" میں یگانہ پر خاکہ لکھتے ہوئی لکھی ہے، مذکورہ واقعہ کا ذکر کچھ یوں آیا ہے۔
"بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگے اور پھر مجھ سے پوچھا۔ "آپ نے میرا جلوس دیکھا تھا؟"
"کیسا جلوس؟"
"اجی وہی جس میں مجھے جوتوں کے ہار پہنائے گئے تھے، میرا منہ بھی کالا کیا گیا تھا اور گدھے پر سوار کر کے مجھے شہر بھر میں گھمایا گیا تھا۔"
"اللہ کا شکر ہے کہ میں نے وہ جلوس نہیں دیکھا۔"
"واہ صاحب وا، آپ نے تو ایسے اللہ کا شکر ادا کیا ہے جیسے کوئی گھٹیا بات ہو گئی ہو، سوچو تو سہی کہ آخر کروڑوں آدمیوں میں سے صرف مجھی کو اپنی شاعری کی وجہ سے اس اعزاز کا مستحق کیوں سمجھا گیا؟ جب کہ یہ درجہ غالب تک کو نصیب نہ ہوا، میر تک کو نصیب نہ ہوا۔"
میں چاہتا تھا کہ میرزا صاحب اس تکلیف دہ قصہ کو یہیں ختم کر دیں مگر وہ مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو اور اسکے بدلے یہ گراں قدر انعام پایا ہو۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فوراً دو غزلہ کے مُوڈ میں آ گئے۔ "جی ہاں جناب، آپ کے لاہور میں بھی گرفتار ہوئے تھے۔"
"وہ قصہ کیا تھا۔"
"جناب قصہ یہ تھا کہ میرزا یگانہ چنگیزی یہاں سے کراچی کا پاسپورٹ لے کے چلے تھے اور لاہور پہنچ کر اپنے ایک دوست کے ساتھ پنجاب سے نکل کر سرحد پہنچ گئے تھے، واپسی پر گرفتار کر لیا گیا۔ (ایک دم جمع سے واحد کے صیغے پر آ گئے)۔ اکیس روز جیل میں بند رہا، ہتھکڑی لگا کر عدالت میں لایا گیا، پہلی پیشی پر مجسٹریٹ صاحب نے نام پوچھا۔ میں نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بڑی شان سے بتایا۔ "یگانہ"۔
ساتھ کھڑے ہوئے ایک وکیل صاحب نے بڑی حیرت سے مجھ سے سوال کیا۔ "یگانہ چنگیزی؟"۔
"جی ہاں جناب۔"
یہ سنتے ہی مجسٹریٹ صاحب نے (غالباً آفتاب احمد نام بتایا تھا) میری رہائی کا حکم صادر فرما دیا۔
جب رہا ہو گیا تو جاتا کدھر؟ اور پریشان ہو گیا، مجسٹریٹ صاحب نے میری پریشانی کو پڑھ لیا، میں نے ان سے عرض کیا، میرے تمام روپے تو تھانے والوں نے جمع کر لیے تھے، اب مجھے دلوا دیجیئے۔ اس پر مجسٹریٹ صاحب نے کہا، درخواست لکھ دیجیئے۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی، کاغذ کہاں سے لاتا اور کیسے درخواست لکھتا، اس پر بہ کمالِ شفقت مجسٹریٹ صاحب نے مجھے ایک آنہ دیا اور میں نے کاغذ خرید کر درخواست لکھی جس پر مجھے فوراً روپے مل گئے۔ آپ لاہور جائیں تو آفتاب احمد صاحب کے پاس جا کر میرا سلام ضرور عرض کریں۔
اور ہاں آپ بھی لاہور جا کر اب یہ کہیں گے کہ یگانہ سے ملے تھے، آپ یگانہ سے کہاں ملے ہیں؟ یگانہ کو گوشت پوست کے ڈھانچے میں دیکھنا غلط ہے، یگانہ کو اس کے شعروں میں دیکھنا ہوگا، یگانہ کو اس ٹوٹی ہوئی چارپائی پر دیکھنے کی بجائے اس مسند پر دیکھنا ہوگا جس پر وہ آج سے پچاس برس بعد بٹھایا جائے گا۔"
یگانہ کی مظلومیت یہیں ختم نہیں ہوتی، ان کو موت کے بعد بھی نہ بخشا گیا، ان کا جنازہ پڑھنا حرام قرار دے دیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ فقط کچھ لوگ ہی انکے جنازے میں شامل تھے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی
۔۔۔
بشکریہ؛ محمد وارث
تخلیقاتِ یگانہ
(بحوالہ چراغِ سخن، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، 1996ء)
– نشترِ یاس (شعری مجموعہ)، لکھنؤ، 1914ء
– چراغِ سخن (رسالہ عروض و قوافی)، لکھنؤ، 1914ء
– شہرتِ کاذبہ المعروف بہ خرافاتِ عزیز (عزیز لکھنؤی کی شاعری پر اعتراضات)، لکھنؤ۔ 1923ء
– آیاتِ وجدانی مع محاضرات (شعری مجموعہ)، لاہور، 1927ء
– ترانہ (مجموعۂ رباعیات)، لاہور، 1934ء
– غالب شکن (مکتوبِ یگانہ بنام مسعود حسن رضوی ادیب)، حیدرآباد دکن، 1934ء
– گنجینہ (مجموعۂ غزلیات و رباعیات)، لاہور، 1948
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس کی آواز کان میں آئی
دُور کی بات دھیان میں آئی
ایسی آزاد رُوح اس تن میں
کیوں پرائے مکان میں آئی
آپ آتے رہے بلاتے رہے
آنے والی اک آن میں آئی
ہائے کیا کیا نگاہ بھٹکی ہے
جب کبھی امتحان میں آئی
علم کیا، علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی
کہیے کیا بات دھیان میں آئی
حُسن کیا خواب سے ہوا بیدار
جان تازہ جہان میں آئی
جان لیوا ہے یہ کڑی تیوری
یہ کشش کس کمان سے آئی
بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لکنت زبان میں آئی
آنکھ نیچی ہوئی، ارے یہ کیا؟
کیوں غرض درمیان میں آئی
میں پیمبر نہیں یگانہ سہی
اس سے کیا کسر شان میں آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لذّتِ زندگی مُبارک باد
کل کی کیا فکر؟ ہر چہ بادا باد
اے خوشا زندگی کہ پہلوئے شوق
دوست کے دم قدم سے ہے آباد
دل سلامت ہے، دردِ دل نہ سہی
درد جاتا رہا کہ درد کی یاد؟
زیست کے ہیں یہی مزے واللہ
چار دن شاد، چار دن ناشاد
کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد برسرِ فرہاد
صبر اتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ ہو جائے لذّتِ بیداد
صلح کر لو یگانہ غالب سے
وہ بھی استاد، تم بھی اک استاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
پیامِ زیرِ لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی، رہا نہ گیا
ہنسی میں وعدۂ فردا کو ٹالنے والو
لو دیکھ لو وہی کل آج جن کے آ نہ گیا
گناہِ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لئے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانۂ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا
کروں تو کس سے کروں دردِ نا رسا کا گلہ
کہ مجھ کو لے کے دلِ دوست میں سما نہ گیا
بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو کوئی بندۂ خدا نہ گیا
کرشن کا ہوں پجاری، علی کا بندہ ہوں
یگانہ شانِ خدا دیکھ کر رہا نہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
بُرا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کرراہ پر آنا نہیں آتا
مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اُتر جانا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
اسیرو، شوقِ آزادی مجھے بھی گدگداتا ہے
مگر چادر سے باہر پاؤں پھیلانا نہیں آتا
دلِ بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں، میں کیا بتاؤں کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حُسن پر فرعون کی پھبتی کہی
ہاتھ لانا یار کیوں کیسی کہی
دامنِ یوسف ہی بھڑکاتا رہا
عشق اور ترکِ ادب اچھی کہی
کوئی ضد تھی یا سمجھ کا پھیر تھا
من گئے وہ، میں نے جب اُلٹی کہی
درد سے پہلے کروں فکرِ دوا
واہ یہ اچھی الٹوانّسی کہی
دوست سے پردہ کیا یہ کیا کیا
آپ بیتی چھوڑ جگ بیتی کہی
شک ہے کافر کو مرے ایمان میں
جیسے میں نے کوئی منہ دیکھی کہی
کیا خبر تھی یہ خدائی اور ہے
ہائے میں نے کیوں خدا لگتی کہی
مفت میں سُن لی یگانہ کی غزل
ان سُنی کر دی جو مطلب کی کہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اُجڑتی ہے، ایک سمت بستی ہے
بے دلوں کی ہستی کیا، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری، ہوش ہے نہ مستی ہے
کیمیائے دل کیا ہے، خاک ہے مگر کیسی؟
لیجیے تو مہنگی ہے، بیچیے تو سستی ہے
خضرِ منزل اپنا ہوں، اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا، کیا سمجھ کے ہنستی ہے
کیا کہوں سفر اپنا، ختم کیوں نہیں ہوتا
فکر کی بلندی یا حوصلہ کی پستی ہے
حُسنِ بے تماشہ کی، دھوم کیا معمّہ ہے
کان بھی ہیں نا محرم، آنکھ بھی ترستی ہے
چتونوں سے ملتا ہے، کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پر، سادگی برستی ہے
ترکِ لذّتِ دنیا، کیجیے تو کس دل سے
ذوقِ پارسائی کیا فیضِ تنگ دستی ہے
دیدنی ہے یاس اپنے رنج و غم کی طغیانی
جھوم جھوم کر کیا کیا یہ گھٹا برستی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنوز زندگیٔ تلخ کا مزا نہ ملا
کمالِ صبر ملا صبر آزما نہ ملا
مری بہار و خزاں جس کے اختیار میں ہے
مزاج اس دلِ بے اختیار کا نہ ملا
جواب کیا، وہی آوازِ بازگشت آئی
قفس میں نالۂ جانکاہ کا مزا نہ ملا
امیدوارِ رہائی قفس بدوش چلے
جہاں اشارۂ توفیقِ غائبانہ ملا
ہوا کے دوش پہ جاتا ہے کاروانِ نفَس
عدم کی راہ میں کوئی پیادہ پا نہ ملا
ہزار ہا اسی جانب ہے منزلِ مقصود
دلیلِ راہ کا غم کیا، ملا ملا نہ ملا
امید و بیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
خوشا نصیب جسے فیضِ عشقِ شور انگیز
بقدرِ ظرف ملا، ظرف سے سوا نہ ملا
سمجھ میں آ گیا جب عذرِ فطرتِ مجبور
گناہگارِ ازل کو نیا بہانہ ملا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگ لاتی ہے آخر ایک جُنبشِ لب کیا
دیکھئے دکھاتا ہے وعدۂ مذبذب کیا
چُلّو بھر میں متوالی، دو ہی گھونٹ میں خالی
یہ بھری جوانی کیا، جذبۂ لبالب کیا
ہاں دعائیں لیتا جا، گالیاں بھی دیتا جا
تازگی تو کچھ پہنچے، چابتا رہوں لب کیا
شامت آ گئی آخر کہہ گیا خدا لگتی
راستی کا پھل پاتا، بندۂ مقرّب کیا
اُلٹی سیدھی سنتا رہ، اپنی کہہ تو اُلٹی کہہ
سادہ ہے تو کیا جانے، بھانپنے کا ہے ڈھب کیا
سب جہاد ہیں دل کے، سب فساد ہیں دل کے
بے دِلوں کا مطلب کیا اور ترکِ مطلب کیا
ہو رہے گا سجدہ بھی جب کسی کی یاد آئی
یاد جانے کب آئے، زندہ داریٔ شب کیا
کارِ مرگ کے دن کا تھوڑی دیر کا جھگڑا
دیکھنا ہے یہ ناداں جینے کا ہے کرتب کیا
پڑ چکے بہت پالے، ڈس چکے بہت کالے
موذیوں کے موذی کو، فکرِ نیشِ عقرب کیا
میرزا یگانہ واہ، زندہ باد زندہ باد
اک بلائے بے درماں جب تو کیا تھے اور اب کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود