انسان مشرق کا ہو یا مغرب کا اس کی تخلیق کا موضوع اس کے رنگوں اور خطوں کی لطافت غرض اس کا ہر نقش کسی نہ کسی صورت میں اس کی ملت سے وابستہ رہا ہے۔
ہر مذہب و ملت کے فن کاروں نے اپنی تہذیبی ورثے سے نشوونما کی نئی راہیں نکالیں ہیں۔ معمار خاندان جوکہ چودہ پشتوں سے عمارت سازی سے وابستہ ہے اسی معمار خاندان میں کریم بخش کے ہاں ایک روشن ستارے محمد عبدالرحمن چغتائی نے 21 ستمبر 1897ء میں لاہور کے ایک محلہ چابک ساواراں میں جنم لیا۔
چغتائی کے آباؤ اجداد کا واسطہ تعمیرات‘ مصوری اور نقاشی سے تھا۔ جن کا تعلق دربار سے رہا۔ ان کے پردادا صلاح معمار ان بزرگان مہندس میں سے تھے جو تاج محل لال قلعہ اور بادشاہی مسجد جیسی عظیم عمارتوں کے خالق تھے۔ ان کی تخلیقات دنیا کے مختلف عجائب گھروں کی زینت بنی ہوئی تھی۔ ضرورت اور کمی صرف اس بات کی تھی کہ ان کی باقی ماندہ پینٹنگز اور نوادرات کو یکجا کرکے محفوظ کیا جائے۔
چنانچہ ان کی وصیت کے مطابق لاہور میں ان کے ذاتی گھر ’’4 گارڈن ٹاؤن بلاک لاہور‘‘ کو چغتائی میوزیم ٹرسٹ آرٹ گیلری کے نام سے منسوب کرکے چغتائی مرحوم کے بیٹے عارف چغتائی جو اس میوزیم کے بانی اور ناظم بھی ہیں تعمیر کیا۔ ہر سال 17 جنوری کو چغتائی آرٹ کی نمائش کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس گیلری میں عبدالرحمن چغتائی کے والد صاحب کی فیچر آرٹ میں عہد تاریخ 1913ء اور پردادا صلاح معمار 1849ء مغلیہ لباس میں ملبوس پینٹنگ رکھی گئی ہے ان تصاویر کے ساتھ ہی آباؤ اجداد کے کچھ خطوط‘ رجسٹری مکان چابک سواراں جس کی مالیت 50 روپے بتائی گئی ہے محفوظ ہے۔ بیاہ شادی میں آنے والے تحائف بھی بڑی حفاظت سے رکھے گئے ہیں۔
چغتائی صاحب کے ہاتھ سے بنے ہوئے ابتدائی پیکج جو کالی پینل سے بغیر ربڑ استعمال کئے دکھائے گئے ہیں۔ ان کے ڈیزائنوں میں ابھی بھی انفرادیت قائم ہے۔ ان کے بنے ہوئے دو عدد سٹمپ ایک انسانی حقوق اور دوسری میں ’’ستارے کی روشنی اور ترازو‘‘ کے ذریعے انصاف دکھایا گیا ہے۔
عبدالرحمن چغتائی نے ہمیشہ ہلکے رنگوں کو استعمال کیا ہے ان کی پنٹنگز میں نفاست چمک اور دیرپا رہنے کی تکنیک کو Wash کہا گیا ہے یعنی عرصہ دراز تک پانی میں رکھا جائے پنٹنگز میں پھر بھی وہی پختگی اور چمک رہتی ہے۔ چغتائی زیادہ تر Hand made paper استعمال کرتے۔ چغتائی ایک منفرد مصور ہی نہیں ایک ادیب بھی تھے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں بھی لکھیں میوزیم میں لائبریری بھی موجود ہے جہاں ہزاروں کتابیں موجود ہیں جن سے ہزاروں طلبا و طالبات استفادہ حاصل کرتے ہیں پی ایچ ڈی کے علاوہ ریسرچ کے لئے بھی لوگ آتے ہیں۔
عبدالرحمن چغتائی کی پنٹنگز کی پہلی نمائش لاہور میں ’’فائن آرٹ سوسائٹی لاہور‘‘ اور آخری نمائش بھی 2001ء میں لاہور الحمرا آرٹ گیلری میں منعقد ہوئی۔ اس سے قبل 1964ء میں ’’کلام اقبال‘‘ کو ’’عمل چغتائی‘‘ میں مصوری کی نمائش الحمرا میں ہوئی جس میں صدر پاکستان ایوب خان نے ایک لاکھ روپے انعام دیا۔ چغتائی واحد مصور تھے جن کے گھر ایوب خان خود گئے۔
عبدالرحمن چغتائی 17 جنوری 1975ء کو خالق حقیقی سے جا ملے آپ کی آخری آرام گاہ بھی اسی میوزیم میں ہے۔
بشکریہ:ساجدہ حنیف (نیڈل) آرٹسٹ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1914ء میں انہوں نے میو اسکول آف آرٹس لاہور سے ڈرائنگ کا امتحان امتیازی انداز میں پاس کیا۔ اس دوران انہوں نے استاد میراں بخش سے خاصا استفادہ کیا پھر میو اسکول ہی میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔
1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوری کی ایک نمائش نے ان کی طبیعت پر مہمیز کا کام کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنے اسکول کے پرنسپل کے مشورے پر اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ یہ تصاویر شائع ہوئیں تو ہر طرف چغتائی کے فن کی دھوم مچ گئی۔ اسی زمانے میں انہوں نے مصوری میں اپنے جداگانہ اسلوب کی بنیاد ڈالی جو بعد ازاں چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔
1928ء میں انہوں نے ’’مرقع چغتائی‘‘ شائع کیا جس میں غالب کے کلام کی مصورانہ تشریح کی گئی تھی۔ یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جس کی شاندار پذیرائی ہوئی۔ 1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب ’’نقش چغتائی‘‘ شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر چغتائی کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوئیں جن کی فن کے قدر دانوں نے دل کھول کر پذیرائی کی۔ ان کے فن پاروں کے کئی مزید مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں چغتائی پینٹنگز اور عملِ چغتائی کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد عبدالرحمن چغتائی نے نہ صرف پاکستان کے ابتدائی چار ڈاک ٹکٹوں میں سے ایک ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا بلکہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے مونوگرام بھی تیار کیے جو آج بھی ان کے فن کی زندہ یادگار ہیں۔
عبدالرحمن چغتائی ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’لگان‘‘ اور ’’کاجل‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود