(عرفان خان ہندی سنیماکے نمایاں ترین اورگنے چنے سٹارز میں سے ایک تھے،ان کی اداکاری میں سنجیدگی کا عنصر حاوی رہتاتھا،وہ اپنے کردارکواس شدت سے نبھاتے کہ ناظرین کے ذہن و دماغ پر بھی اس کاراست اثر پڑتا،ان کی شخصیت میں ایک قسم کی انفرادیت تھی اوراسی انفرادیت کی وجہ سے وہ بالی ووڈسے لے کر ہالی ووڈتک اپنامعیارووقار قائم کرنے میں کامیاب ہوئے،ان کی آنکھوں کی شعلگی ان کے اندرون کے جنون کا پرتوتھی اور وہ Fictitious فلموں سے زیادہ زندگی کے حقائق سے ہم آہنگ فلمیں کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ عموماً ان کی اداکاری میں تفریحِ طبع کاسامان ہونے کے علاوہ سماج کے لیے کوئی نہ کوئی پیغام بھی مضمر ہوتااوراسی وجہ سے ان کی اکثرفلمیں اپنے سبجیکٹ، مواد، کہانی اورعرفان کی اداکاری کی وجہ سے یادگار بن گئیں ـ
وہ گزشتہ دوتین سال سے کینسر کی ایک بالکل انوکھی قسم کے مرض میں مبتلاتھے، پچھلے سال ٹھیک ہوکرواپس بھی آگئے تھے اوراس کے بعدبھی انھوں نے غالبادوتین فلموں میں کام کیاـ آج اچانک ان کے انتقال کی خبرملی، تو2018میں لکھاگیاان کاایک نوٹ یادآگیا، جسے دنیابھرکے لاکھوں کروڑوں لوگوں نے پڑھاتھا، میں نے اس کااردوترجمہ بھی کیاتھاـ اس تحریر میں انھوں نے منفرد، معنی خیز وعبرت انگیزاندازمیں زندگی کی حقیقت، بے ثباتی وناپائیداری پراظہارِخیال کیاتھاـ ان کے لیے مغفرت کی دعاؤں کے ساتھ وہ تحریردوبارہ آپ کی خدمت میں پیش ہے)
زندگی کی حقیقت کیاہے؟
بالی ووڈسٹارعرفان خان کا اثرانگیزنوٹ
کچھ دنوں پہلے مجھے پتاچلاکہ میں Neuroendocrine نامی خطرناک کینسرمیں مبتلاہوں،میرے علم میں آنے والایہ نیالفظ اوریہ بیماری بالکل نایاب تھی اور چوں کہ اس پر زیادہ ریسرچ بھی نہیں ہوئی تھی؛اس لیے اس کے بارے میں معلومات بھی کم تھیں اور نتیجہ خیز علاج کے امکانات بھی کم سے کم نظرآرہے تھے،میں تجربات اور غلطیوں کے ایک نئے کھیل کا حصہ بن چکا تھا،جبکہ ایک طویل عرصے سے میں کسی اور گیم میں مصروف تھا،میں ایک تیزرفتار ٹرین میں بیٹھا بھاگا جارہاتھا،میرے ساتھ میرے خواب تھے،منصوبے تھے، آرزوئیں تھیں،نصب العین تھا،میں انھیں پورا کرنے میں منہمک تھاکہ اچانک میرے کندھے پر کسی کا ہاتھ پڑا،جب میں نے گھوم کر دیکھا،توسامنے ٹی سی تھا’’آپ کی منزل آنے والی ہے،آپ کو اترناہوگا‘‘اس نے کہا،میں کنفیوژن کا شکار ہوگیا،میں نے کہا’’نہیں،ابھی میری منزل نہیں آئی‘‘۔جواب ملا’’نہیں،،جوبھی ہے یہی آپ کا سٹیشن ہے،آپ کو یہیں اترنا ہوگا‘‘۔
اچانک مجھے احساس ہواکہ تمھاری حقیقت توبس بے کراں سمندرکی پرہول لہروں پربہنے والے ایک ڈاٹ؍ڈھکن(Cork)جیسی ہے اور تم ان لہروں پرقابوپانے کی کوشش کررہے ہو،سخت شور،گھبراہٹ اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوگیا،اسی دوران اپنے ایک ڈراؤنے ہاسپٹل وزِٹ کے وقت میں نے اپنے بیٹے سے کہا’’اس وقت میں اپنے آپ سے بس اتنا چاہتاہوں کہ میں اس سنگین و تکلیف دہ صورتِ حال سےچھٹکاراحاصل کروں،مجھے ہر حال میں اپناپاؤں چاہیے،میں کھڑا ہونا چاہتاہوں،خوف اور بدحواسی کی یہ حالت مجھے مغلوب ومایوس نہیں کرسکتی‘‘۔
یہ میری منشا تھی؛چنانچہ کچھ دنوں بعدمیں ہسپتال میں داخل ہوگیا، دردشدید ہوتا گیا،پہلے سے یہ پتاتھاکہ دردہوگا،مگر اب اس کی گہرائی اور شدت کا احساس ہورہاتھا،دردپر قابوپانے کے لیے کوئی وسیلہ بھی کام نہیں کررہا تھا،نہ کوئی تسلی،نہ حوصلہ بخشی،ایسالگتاکہ اس وقت ساری کائنات بس’’درد‘‘کااستعارہ ہے اور یہ دردبے انتہاعظیم ہے!
جس وقت میں نہایت بے چارگی،کمزوری اور بدحواسی کے عالم میں ہسپتال میں داخل ہورہاتھا،اسی دوران مجھے پتاچلاکہ میراہسپتال لارڈس سٹیڈیم کی دوسری جانب واقع ہے،یہ میرے بچپن کے خوابوں کامکہ تھا،اسی اتھاہ دردکے دوران میں نے Vivian Richards کا مسکراتاہوا پوسٹر دیکھا، مگر اسے دیکھ کر مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہوا،گویامیرااِس دنیا سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔
اس ہسپتال میں ٹھیک میرے اوپر کوماوارڈ ہے،اس میں بالکنی بھی ہے،جس سے باہر کے مناظر دِکھتے ہیں،ایک دن میں بالکنی میں کھڑاتھاکہ ایک حقیقت نے
مجھے جھنجھوڑدیا،مجھے محسوس ہواکہ زندگی اور موت کے کھیل کے درمیان بس ایک سیدھی سڑک ہے،جس کی ایک جانب ہسپتال ہے اور دوسری جانب سٹیڈیم،مگردونوں میں سے کسی کاوجود بھی قطعی اور حتمی(دائمی)نہیں ہے،اس حقیقت کے ادراک سے میرے ذہن میں ایک تیز جھماکاساہوا،میں اس کائنات کی عظمت و قو ت میں مدغم ہوچکا تھا،میرے ہسپتال کے محلِ وقوع کی اس خصوصیت نے میرے ذہن پر عجیب اثر ڈالا،تبھی مجھے احساس ہواکہ دنیاکی اگر کوئی حقیقت ہے،تووہ اس کی بے حقیقتی اور عدمِ قطعیت ہے،میرے کرنے کاکام یہ ہے کہ میں اپنی طاقت کوپہچانوں اوراپناکھیل اچھی طرح پیش کر سکوں۔
کائنات کی اس سچائی کے ادراک نے مجھے تسلیم ورضاکی راہ پرڈال دیا،چاہے نتائج جوبھی ہوں اور جیسے بھی ہوں،اب سے آٹھ ماہ یاچار ماہ یا دوسال کی مہلت ملے ،اس کی فکر میرے دماغ سے نکلی اور دورہوتی چلی گئی۔پہلی بار مجھے ’’آزادی‘‘کی حقیقی معنویت کا احساس ہوا،صحیح معنوں میں ایک حصول یابی کا احساس،پہلی بار میں زندگی کا حقیقی ذائقہ چکھ رہاتھا،اس کے جادوئی پہلوسے واقف ہورہاتھا،کائنات کی حقیقت کامجھے مکمل ادراک ہوا،ایسامحسوس ہواکہ وہ میری رگوں میں جم گئی ہے،یہ تووقت بتائے گاکہ اسے ثبات ہے یانہیں،مگر فی الحال میں ایسا ہی محسوس کررہا ہوں۔
دنیابھرکے مختلف خطوں سے لوگ میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار اورمیری شفایابی کے لیےدعائیں کررہے ہیں،ان میں وہ بھی ہیں،جنھیں میں جانتاہوں،وہ بھی ہیں،جنھیں میں نہیں جانتا،وہ مختلف مقامات پر،مختلف اوقات میں میرے لیے دعائیں کررہے ہیں،مجھے لگتاہے کہ ان سب کی دعائیں ایک ’’وحدت ‘‘میں تبدیل ہوگئی ہیں،ایک بڑی طاقت میں بدل گئی ہیں،لہروں جیسی طاقت میں،یہ دعائیں ریڑھ کے راستے میں میرے وجودمیں داخل ہورہیں اور میرے سرکے اوپری حصے سے کونپلوں کی مانند پھوٹ رہی ہیں،کبھی کلی کی شکل میں،کبھی پتے کی شکل میں اور کبھی شاخ کی شکل میں،میں انھیں محسوس کرسکتا اور دیکھ سکتاہوں،دنیابھر کے خیرخواہوں کی دعاؤں سے پھوٹنے والی ہرکونپل،ہر پھول،ہرشاخ اور ہر پتہ مجھے تازگی،خوشی اور شفاسے ہم کنار کررہا ہے اور مجھے یہ احساس ہورہاہے کہ کائنات کے سمندرمیں بہتے ہوئے ڈھکن کو تیزطرار لہروں پر قابوپانے کی کوئی ضرورت نہیں ،بس آپ یہ محسوس کریں کہ قدرت کی نرم آغوش میں جھول رہے ہیں!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...