آج – 18؍نومبر 2005
نامور ادیب اور شاعر ” عمر انصاری عمرؔ لکھنوی صاحب“ کا یومِ وفات……
نام محمد عمر انصاری اور تخلص عمرؔ تھا۔
23؍ستمبر 1912ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے (آنرز) کیا۔ انھوں نے کافی تعداد میں افسانے، ڈرامے ،تنقیدی مضامین اور انشائیے لکھے ہیں جو مختلف کتابوں اور ملک کے مقتدر رسائل واخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ وہ کئی رسائل اور اخبار کے مدیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ فلم ’’بابل‘‘ کے کنٹرولر آف پروڈکشن رہے۔ فلم ’’سوہنی مہیوال‘‘ پاکستان(لاہور) کے گانے لکھے۔ شاعری کا آغاز 1930ء سے ہوا۔ تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ مندرجہ ذیل مجموعہ ہائے کلام شائع ہوچکے ہیں۔’’جرس کارواں‘‘، ’’بازگشت‘‘، ’’ساز بے خودی‘‘، ’’صنم کدہ‘‘، ’’ترانۂ نعت‘‘، ’’حرف ناتمام‘‘، ’’نقش دوام‘‘، ’’کشید جاں‘‘۔ ان کی کئی کتابوں پر اعزازات اور انعامات مل چکے ہیں۔ 1985ء میں ا ن کی مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں اترپردیش اردو اکادمی نے اپنا سب سے بڑا مبلغ دس ہزار روپے کا ایوارڈ دیا۔
عمر انصاری عمرؔ لکھنوی 18؍نومبر 2005ء کو لکھنؤ میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:41
✨🌹 پیشکش : شمیم ریاض
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
💫🍁 معروف شاعر عمر انصاری عمرؔ لکھنوی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…..🍁💫
ہیں سارے جرم جب اپنے حساب میں لکھنا
سوال یہ ہے کہ پھر کیا جواب میں لکھنا
برا سہی میں پہ نیت بری نہیں میری
مرے گناہ بھی کار ثواب میں لکھنا
رہا سہا بھی سہارا نہ ٹوٹ جائے کہیں
نہ ایسی بات کوئی اضطراب میں لکھنا
یہ اتفاق کہ مانگا تھا ان سے جن کا جواب
وہ باتیں بھول گئے وہ جواب میں لکھنا
ہوا محل میں سجایا تھا تم نے جب دربار
کوئی غریب بھی آیا تھا خواب میں لکھنا
نہ بھولنا کہ عمرؔ ہیں یہ دوستوں کے حساب
کبھی نہ پڑھنا جو دل کی کتاب میں لکھنا
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
لڑ جاتے ہیں سروں پہ مچلتی قضا سے بھی
ڈرتے نہیں چراغ ہمارے ہوا سے بھی
برسوں رہے ہیں رقص کناں جس زمین پر
پہچانتی نہیں ہمیں آواز پا سے بھی
اب اس کو التفات کہوں میں کہ بے رخی
کچھ کچھ ہیں مہرباں سے بھی کچھ کچھ خفا سے بھی
چھپ کر نہ رہ سکے گا وہ ہم سے کہ اس کو ہم
پہچان لیں گے اس کی کسی اک ادا سے بھی
دل کانپ کانپ اٹھتا ہے عزم گناہ پر
مل جاتی ہے سزا ہمیں پہلے خطا سے بھی
اکثر ہوا ہے یہ کہ خود اپنی تلاش میں
آگے نکل گئے ہیں حد ماسوا سے بھی
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
باہر باہر سناٹا ہے اندر اندر شور بہت
دل کی گھنی بستی میں یارو آن بسے ہیں چور بہت
یاد اب اس کی آ نہ سکے گی سوچ کے یہ بیٹھے تھے کہ بس
کھل گئے دل کے سارے دریچے تھا جو ہوا کا زور بہت
موجیں ہی پتوار بنیں گی طوفاں پار لگائے گا
دریا کے ہیں بس دو ساحل کشتی کے ہیں چھور بہت
میں بھی اپنی جھونک میں تھا کچھ وہ بھی اپنے زعم میں تھا
ہوتی بھی ہے کچھ مرے یارو پیار کی کچھ ڈور بہت
فصل خزاں تو سہہ لی لیکن موسم گل میں ٹوٹ گری
بوجھ پھلوں کا سہہ نہیں پائی شاخ کہ تھی کمزور بہت
دل سے اٹھا طوفان یہ کیسا سارے منظر ڈوب گئے
ورنہ ابھی تو اس جنگل میں ناچ رہے تھے مور بہت
برسوں بعد ملا ہے موقع آؤ لگا لیں کشتی پار
آج تو یارو سناٹا ہے دریا کے اس اور بہت
آج یقیناً مینہ برسے گا آج گرے گی برق ضرور
انکھیاں بھی پر شور بہت ہیں کجرا بھی گھنگھور بہت
کس سے کس کا ساتھی چھوٹا کس کا عمرؔ کیا حال ہوا
پربت پربت وادی وادی رات مچا تھا شور بہت
💠♦️🔹➖➖🎊➖➖🔹♦️💠
🌹 عمر انصاری عمرؔ لکھنوی 🌹
✍️ انتخاب : شمیم ریاض
https://web.facebook.com/TahreekBaqaeUrdu/posts/1298777803900623
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...