پیدائش: 28 ستمبر 1970ء (کوئٹہ، پاکستان)
وفات: 22 دسمبر 2011ء (اسلام آباد، پاکستان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صائمہ عمار کا شمار پاکستان کی نامور نابینا ماہرِ تعلیم، شاعرہ اور سماجی کارکن خواتین میں ہوتا ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
صائمہ 28 ستمبر 1970ء کو پاکستان کے شہر کوئٹہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد نیاز احمد فوج میں بریگیڈئیر تھے۔ والدہ کا نام خورشید نیاز تھا۔ صائمہ ایک بھائی اور دو بہنوں کے بعد پیدا ہوئیں۔
صائمہ کو ڈھائی سال کی عمر میں ٹائیفائیڈ ہوا۔ اس بخار کی شدت سے (Optic Nerves) بصری نروز بری طرح متاثر ہوئیں۔ یہ وہ نروز ہیں جس کی بدولت انسان دیکھ سکتا ہے۔ ماں باپ نے علاج کروانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن بینائی واپس نہیں آ سکی۔
صائمہ جب کچھ بڑی ہوئیں تو الخطوم سپیشل ایجوکیشن سینٹر، اسلام آباد میں داخل کرا دی گئیں۔ آٹھ سال کی عمر میں اس کے ماموں نے اسے بیٹی بنا کر بطور ایڈوپٹ (adopt) لندن اپنے پاس بلوا لیا۔ لندن میں صائمہ نے نابینا بچوں کی کے لیے قائم کردہ (Linden Lodge School for the Blind) میں تعلیم حاصل کی۔
پڑھائی کے علاوہ انہوں نے کھیل مثلا ڈسکس تھرو، جیولن تھرو، تیراکی، سائیکلنگ جیسی تفریحات میں بھی خوب حصہ لیا۔ وہ اپنے اسکول کی بہترین طالبہ چنی گئیں۔ اسی بنیاد پر ان کا داخلہ نابینا افراد کے لیے قائم کردہ چورلے ووڈ کالج، چورلے، انگلینڈ ( Chorley Wood College، Chorley) میں ہو گیا۔
وہاں سے گریجویشن کے بعد اٹھارہ سال کی عمر میں صائمہ جب پاکستان آئیں توانہوں نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تاہم جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہاں ان جیسے خاص لوگوں کے لیے آگے بڑھنے کی سہولتیں بہت ہی کم ہیں۔
سی ایس ایس کے امتحان میں خاص افراد کے لیے مخصوص نشستیں نہیں تھیں۔ لہذا صائمہ نے نارمل طلبہ کے ساتھ قائد اعظم یونیورسٹی میں انٹر نیشنل ریلیشنز (ایم اے) میں داخلہ لے لیا۔ اور جب امتحان دیا تو ایک ہزار طلبہ میں ان کی پہلی پوزیشن آئی۔
کیرئیر
ایم اے مکمل کر کے بعد جب معلوم ہوا کہ وہ سی ایس ایس کی ملازمت نہیں کر سکتیں تو انہوں نے ایک ادارے پی ایف بی بی میں کام کرنا شروع کر دیا۔ اور اسی ادارے میں ملازمت کے دوران میں 30 اکتوبر 1997ء کو ان کی شادی ٹی وی کمپیر عمار مسعود سے ہوئی جو پنجابی کے مشہور شاعر انور مسعود کے بیٹے ہیں۔
پی ایف بی بی کے آڈیو ورلڈ میں خدمات
1995ء میں صائمہ نے اس ادارہ کی ایک شاخ آڈیو ورلڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور بہت سارے لوگوں کی مدد سے تعلیمی اور تفریحی کتابوں کو ٹیپ کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس کے باعث آج پانچویں سے بی اے کی سطح تک چاروں صوبوں کا تعلیمی نصاب ریکارڈ کیا جا چکا ہے اور اس وقت بانچ ہزار افراد ان کے ادارے سے مفت رجسٹرڈ میل کے ذریعہ اس تعلیمی اور تفریحی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اپنے بہترین کاموں کی وجہ سے ان کے ادارہ ایف ایف بی نے انہیں 2008ء میں ادارہ کا سی ای او بنا دیا۔ جس کے بعد ان کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں تھیں۔ اب وہ پانچ قسم کے منصوبوں پر کام کر رہی تھیں:
1)آڈیو ورلڈ
2)درخشاں (نابینا عورتوں کے لیے تربیتی ادارہ)
3)میڈیکل ریسرچ
4)فرسٹ انٹرنیٹ کیفے فار بلائنڈ
5)ڈیٹا کلیکشن فار بلائنڈ
نابینا افراد کے لیے صائمہ کے اس منفرد کام اور خدمات نے ان کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا میں شہرت دلائی اور دنیا کے ملکوں سے انہیں کانفرنسوں میں شرکت کے بلاوے آنے لگے۔ یہ وہ عالمی کانفرنسیں تھیں کہ جو معذوری کے موضوع پر ہوتیں۔
ملکی و بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت
1)نابینا افراد کے لیے تربیتی ورکشاپس، سول سوسائٹی اور ٹی وی چینلز پر لیکچرز بھی دیے۔
2)فاطمہ جناح یونیورسٹی میں ایکسٹرنل ایگزامینر بھی رہیں۔
3)2006ء میں صائمہ نے پہلی بار انٹرنیشنل سیمینار کا انتظام پاکستان میں کیا۔ جو آنکھوں کی بیماری ریٹناٹس پک مینٹوسا اور آنکھوں کی دسوری بیماریوں سے متعلق تھا۔
4)2008ء میں امریکا نے انہیں ایک پروگرام میں آنے کی دعوت دی۔
5)یو این کانفرنس بیجنگ میں شرکت
6)ریٹینا انٹرنیشنل کانفرنس، جاپان میں شرکت
7)تیرہویں ورلڈ کانفرنس برائے ریٹینا، نیدر لینڈ میں شرکت
8)2006ء میں پی ایف ایف بی کی جانب سے پہلا انٹرنیشنل سیمینار آرگنائز کیا۔
9)2008ء میں امریکا کے تعلیم و ثقافتی بیورو کے انٹرنیشنل وزٹر پروگرام میں مدعو ہونے پر پہلی پاکستانی نابینا خاتون کا اعزاز پایا۔
10)ان کا آخری پروگرام اٹلی میں ہونے والی ریٹینا کانفرنس میں شرکت تھی۔
وفات
4 اگست 2011ء کی رات 12 بجے اچانک صائمہ کے جسم کا الٹی طرف کا حصہ سن ہو گیا۔ ان کو فوراً شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ ملٹی پل اسکلوروسس (مرکزی اعصابی نظام) کی بیماری کے باعث ان کا دماغ اور ریڑھ کی ہڈی (Spinal Cord) متاثر ہوئے تھے۔ وہ کومہ کی حالت میں چلی گئیں۔ پھر طبیعت تھوڑی سی بہتر ہوئی۔ تو بھی انہیں سانس لینے کے لیے ریسپاریٹر کی مدد کی ضرورت تھی۔ مستقل علاج کے باوجود صائمہ کی طبیعت سنبھل نہ سکی۔ اور بالآخر 22 دسمبر 2011ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد نظم: عادت
ایک خوف سا دل پہ طاری ہے
اک ڈر سے دل کتنا بھاری ہے
آج جب پلکیں جھپکیں گی
کیا ان سے نظر ٹپکے گی
پھر سب کچھ کتنا یاد آئے گا
وہ سب جو اس کے ساتھ جائے گا
چھو چھو کر لکھنا پڑھنا بھی
گن گن کر سیڑھیاں چڑھنا بھی
رنگوں کا سلجھنا بھی
سلجھ کر پھر الجھنا بھی
گرتی بارش کا سننا بھی
چند سوکھے پتوں کا چننا بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد