آج – 29؍جون 2009
بھردوجھولی مری یا محمدؐ جیسے مقبولِ عام کلام کے خالق اور نعت گو شاعر” پُرنمؔ الٰہ آبادی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام محمّد موسیٰ ہاشمی اور تخلص پُرنمؔ تھا۔ والد کا نام حاجی محمّد اسحاق۔
پُرنمؔ الٰہ آبادی، 1940ء میں الٰہ آباد، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کرکے کراچی آ بسے ۔ 1958ء میں استاد قمرؔ جلالوی کی شاگردی اختیار کی اور شاعری میں جداگانہ اسلوب اپنایا اور عشق کے رنگ میں ڈوب کر لازوال کلام تخلیق کیا۔ یہ صوفی اور درویش صفت شاعر اپنے خاندان کو کراچی میں چھوڑ کر نوے کی دہائی میں صوفیا اور اولیائے کرام کی نگری لاہور چلے آئے اور انارکلی میں مستقل قیام پزیر ہو گئے ان کا کلام زبان زد عام ہے۔ خصوصاً ان کی لکھی ہوئی قوالی ’’بھر دو جھولی مری یامحمدؐ ‘‘،” لبوں پر دعا کی صورت گلی گلی “ سے بلند ہوتی ہوئی سنائی دیتی ہے اور روح کو سرشار کرتی چلی جاتی ہے۔
ان کی تصانیف یہ ہیں :
✺ "پھول دیکھے نہ گئے" شاعری نعتوں اور نظموں کا مجموعہ ہے۔
✺ ’’عشق محمدؐ ‘‘
✺ ’’عشق اولیاء کرام‘‘
✺ ’’بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے‘‘
✺ ’’بھردو جھولی مری یا محمدﷺ ‘‘ ان کے شعر ی مجموعوں میں شامل ہیں ۔
پُرنمؔ الٰہ آبادی، ٢٩؍جون ٢٠٠٩ء کو وفات پائی لاہور میں سپرد خاک ہوئے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
صوفی شاعر پُرنمؔ الٰہ آبادی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
بھر دو جھولی میری یا محمدؐ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
حق سے پائی وہ شانِ کریمی مرحبا دونوں عالم کے والی
اس کی قسمت کا چمکا ستارہ جس پہ نظر کرم تو نے ڈالی
زندگی بخش دی بندگی کو آبرو دین حق کی بچا لی
وہ محمدؐ کا پیارا نواسا جس نے سجدے میں گردن کٹا لی
حشر میں ان کو دیکھیں گے جس دم امتی یہ کہیں گے خوشی سے
آ رہے ہیں وہ دیکھو محمدؐ جن کے کندھے پہ ہے کملی کالی
عاشقِ مصطفیٰ کی اذاں میں اللہ اللہ کتنا اثر تھا
عرش والے بھی سنتے تھے جس کو کیا اذاں تھی اذانِ بلالی
کاش پرنمؔ دیار نبی میں جیتے جی ہو بلاوا کسی دن
حالِ غم مصطفیؐ کو سناؤں تھام کر ان کے روضے کی جالی
═══════════════════
اشعار…
دستورِ محبت کا سکھایا نہیں جاتا
یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا
—
وہ آنکھ میرے لیے نم ہے کیا کیا جائے
اسے بھی آج مرا غم ہے کیا کیا جائے
—
ہم نے پھولوں کو جو دیکھا لب و رخسار کے بعد
پھول دیکھے نہ گئے حسن رخ یار کے بعد
—
مصر کا چاند بھی شیدا ہے ازل سے ان کا
حسن کا حسن بھی دیوانہ نظر آتا ہے
—
یہ کہہ کے آگ وہ دل میں لگائے جاتے ہیں
چراغ خود نہیں جلتے جلائے جاتے ہیں
—
افسردگی بھی رخ پہ ہے ان کے نکھار بھی
ہے آج گلستاں میں خزاں بھی بہار بھی
—
بکھرا دی وہیں زلف ذرا رخ سے جو سرکی
کیا رات ڈھلے رات وہ ڈھلنے نہیں دیتے
—
گلی تیری بری لگتی نہیں تھی جان جاں لیکن
نہیں ہے جب سے تو تیری گلی اچھی نہیں لگتی
—
رو دیے وہ بھی مری موت کے بعد اے پرنمؔ
یاد جب میری وفاؤں کے فسانے آئے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
پُرنمؔ الٰہ آبادی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ