نیازؔ سواتی کا اصل نام نیاز محمد خان تھا، آپ کا تعلق وادی کونش کے ایک گاؤں بھوگڑمنگ تھا، تاریخ پیدائش 29اپریل1941ء ہے۔ آپ خداداد وزیر صحت مغربی پاکستان کے بھتیجے ہیں۔
نیاز سواتی گو کہ سنجیدہ شاعری بھی کرتے رہے مگر انہیں طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے سبب زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ طنز و مزاح سے لبریز ان کا کلام پڑھنے سے قاری کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہو جاتی ہے۔
کیا۔اور1964میں لاء کالج پشاور سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ ابیٹ آباد میں بطور سینئر پاپولیشن پلاننگ افیسر کا کرتے رہے، ادب میں صنف شاعری میں اپنے خیالات کو پیش کیا ہے، ہزارہ کے مشاعروں کے روح رواں تھے۔ مجلس شعر جہاں کہیں بھی ہو بڑی چاہت سے شریک ہوتے تھے، علم و ادب و بزم ادب انہیں اپنی تقریبات میں مدعو کرتے تھے۔ آپ نے اردو کے علاوہ علاقائی زبان ہندکو میں بھی کلام لکھے۔اہل ادب کا دعوی ہے کہ آپ طنز و مزاح میں آپ کا ہم عصر کوئی نہ تھا۔
13اگست 1995ءکو ہری پور (ہزارہ) میں ایک المناک ٹریفک حادثے کے دوران اس دنیا سے رخصت ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر نا معلوم
زندہ اور ذی شعور قوموں کی یہ نشانی ہے کہ وہ تاریخ کو فراموش نہیں کرتیں اور نہ ہی اپنے ان ہیروز کے احسانوں کو بھولتی ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دے کر اپنے ملک، علاقے اور مٹی کو ایک پہچان دی ہوتی ہے۔ وہ اُن کی یاد سے جڑی ہر شے محفوظ کر لیتی ہیں تاکہ اس کے ذریعے نئی نسل کو اپنے اسلاف اور ہیروز کے بارے میں مکمل آگاہی ہو مگر یار لوگ کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی مردہ پرست قوم بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے بڑے لوگوں کو ان کی زندگی میں تو نظرانداز کئے رکھتے ہیں لیکن جب وہ دُنیا سے چلے جاتے ہیں پھر ان کی بڑائی کا احساس و ادراک ہوتا ہے جبکہ اکثر ایسے لوگوں کو ہمیشہ کیلئے ہی بھول بھی جاتے ہیں۔ سرزمینِ ہزارہ نے کئی ایسی عظیم شخصیات کو جنم دیا جنہوں نے مختلف شعبوں میں نہ صرف اپنا نام روشن کیا بلکہ ملک و قوم کو بھی عزت بخشی۔ ان شخصیات میں ایک نام نامور ادیب اور مزاح گو شاعر نیاز سواتی کا بھی ہے جن کا تعلق سبزہ زاروں، جھیلوں اور چراگاہوں کی سرزمین مانسہرہ کے علاقے وادی کونش سے تھا۔
وادی کونش ضلع مانسہرہ کا ایک خوبصورت سیاحتی اور تفریحی مقام ہے جو پاک چین دوستی کی علامت شاہراہ قراقرم کے دونوں جانب واقع ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے جنت کی حیثیت رکھنے والے ملک پاکستان کے تفریحی مقامات سوات، کالام، مالم جبہ، کاغان، ناران، شوگراں، ایوبیہ، ٹھنڈیانی، مری، ہنزہ، کالاش اور شمالی علاقہ جات اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں لیکن حالیہ برسوں کے دوران جس علاقہ نے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کیا وہ وادی کونش یا کونش ویلی کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ اپنے دلفریب، موہ لینے والے مناظر، روح پرور آب و ہوا، بلند و بالا فلک بوس سفید لباس اوڑھے کوہسار، دیدہ زیب اور دل کشا مرغزاروں اور جنگلات، جاذب نظر آبشاروں، حد درجہ خوبصورت، پُراسرار اور طلسماتی نیلگوں جھیلوں کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے جبکہ وادی کونش کی جغرافیائی حیثیت یہ ہے کہ اس کے گردونواح کا ہر علاقہ قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ جہاں تک نظر دوڑائی جائے قدرتی مناظر کا ایک دلکش سلسلہ جا بجا پھیلا دکھائی دیتا ہے۔
اس حسین و جمیل وادی کے گاﺅں بھوگڑمنگ میں 29اپریل 1941ءکو نامور مزاحیہ شاعر نیاز سواتی نے جنم لیا۔ نیاز سواتی کا اصل نام نیاز محمد خان تھا۔ آپ نے ڈگری کالج ایبٹ آباد سے بی اے اور لاءکالج پشاور سے ایل ایل بی کیا جبکہ ایبٹ آباد میں بطور سینئر پاپولیشن پلاننگ آفیسر کام کرتے رہے۔ اس دوران آپ اُردو اور ہندکو زبان میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری بھی کرتے رہے۔ نیاز سواتی کی شاعری مختلف اخبارات و رسائل اور عام مشاعروں کے ذریعے عوام تک پہنچی۔ اس شاعری میں انہوں نے سماجی برائیوں اور زندگی کے حقائق پر خوب نشترزنی کی ہے۔ نیاز سواتی کی نظموں میں طنز و مزاح کی کئی جہتیں بیک وقت عمل پذیر ہو کر قاری کے ذہن کو جھنجھوڑنے لگتی ہیں اور وہ گہری سوچ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ ہزارہ کے مشاعروں کے روح رواں سمجھے جاتے تھے۔ اُن کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری واعظ و محتسب، عشق و محبت، صنفِ نازک اور اس کے متعلقات پر مبنی ہے جبکہ سیاسی لیڈروں اور سیاسی رحجانات پر بھی تسلسل کے ساتھ طبع آزمائی کر چکے ہیں۔
نیاز سواتی گو کہ سنجیدہ شاعری بھی کرتے رہے مگر انہیں طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے سبب زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ طنز و مزاح سے لبریز ان کا کلام پڑھنے سے قاری کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہو جاتی ہے۔ راجہ مہدی علی خان، حاجی لق لق، مجید لاہوری، حضر تمیمی، سید محمد جعفری، ظریف جبل پوری، نذیر احمد شیخ، آزر عسکری کی طرح نیاز سواتی بھی ایک ایسے ہمہ وقت مزاح گو شاعر تھے جنہوں نے چمنستانِ طنز و مزاح کو تروتازہ کیا جبکہ انور مسعود، امیر الاسلام ہاشمی، سرفراز شاہد، عنایت علی خان، خالد مسعود، زاہد فخری، انعام الحق جاوید ، سلمان گیلانی اور افضل خاکسار جیسے نامور شاعروں کی شہرت دوام کا باعث بھی یہی طنزیہ و مزاحیہ شاعری ہے اور یہ شعراء اب بھی دنیائے ادب کا ایک بے حد معتبر نام، طنز و مزاح کے افق پر سب سے منور اور درخشاں روشن ستارے سمجھے جاتے ہیں۔
مجھے سنجیدہ شاعری سے اتنی دلچسپی نہیں البتہ طنزیہ و مزاحیہ شاعروں کے کلام پڑھنا اور سننا ضرور پسند کرتا ہوں۔ نیاز سواتی میرے پسندیدہ شاعر تھے مگر افسوس کہ طنز و مزاح کا ایک مقبول اور روشن باب اُس وقت ختم ہو گیا جب وہ 13اگست 1995ءکو ہری پور (ہزارہ) میں ایک المناک ٹریفک حادثے کے دوران اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جب میں آٹھویں یا نویں جماعت کا طالبعلم تھا اُن دنوں ہمارے گھر میں پاکستان آرمی کا ماہنامہ میگزین ”ہلال“ باقاعدگی سے آتا تھا۔ اس میگزین کے ذریعے میرا پہلی بار نیاز سواتی کی شاعری سے تعارف ہوا ۔ ادب اور شاعری قوموں کو زندہ و تابندہ رکھنے کے وسیلے ہیں۔ کسی بھی زندہ قوم کی پہچان اس کی تہذیب، زبان، ادب اور فلسفے سے ہوتی ہے جنہیں پھیلانے اور مشتہر کرنے کیلئے شاعری سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ نیاز سواتی خود تو ہم میں موجود نہیں لیکن اُن کی شاعری آج بھی زندہ ہے البتہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم اس نامور مزاح گو شاعر کو بھولتے جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متخب کلام:
معرکے رشوت کے ہم ہر روز سر کرتے رہے
اور ہماری جیب خالی ڈاکٹر کرتے رہے
خدمت علم و ہنر ہم عمر بھر کرتے رہے
اور سب اعزاز حاصل بے ہنر کرتے رہے
ہم نے سوچا تھا بنینگے ‘پائلٹ ‘لیکن حضور
زندگی بھر بیل گاڑی میں سفر کرتے رہے
دوپہر تک وہ ادھر آرام سے سوتا رہا
انتظار یار شب ہم رات بھر کرتے رہے
دردجو ہم کو تھاوہ ویسے کا ویسے ہی رہا
یک پیسہ بھی نہین ہم نے ہلایا جیب سے
اور باتیں خوب میرے ہمسفر کرتے رہے
درد تو محسوس کرتا تھا میں اپنے پاؤں میں
ڈاکٹر لیکن‘علاجِ درد سر کرتے رہے
ہم نے جن کی راہ سے ہر اک رکاوٹ دور کی
پر وہ کانٹو ں سے ہماری رہگذر کرتے رہے
مشغلہ غیبت ہے اپنا دوست اور احباب کی
کام یہ کرنا نہ تھا جسکو مگر کرتے رہے
مجھ سے پہلے مر گئے وہ میرے وارث اے نیازؔ
میرے مرنے کی دعا جو عمر بھر کرتے رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلط سمجھے ہو ان کے زخم خنجر یاد آتے ہیں
ہمیں احباب کے طعنوں کے نشتر یادآتے ہیں
ارادہ جب بھی کرتا ہوں میں کے پاس جانے کی
جو میرے سر پہ برسے تھے وہ پتھر یاد آتے ہیں
ہمارے لیڈروں کا حافظہ کمزور ہوتا ہے
الیکشن جب قریب آئیں تو ووٹر یاد آتے ہیں
پڑا ہے جب سے پالا سخت خو خاوند سے میڈم کو
تو سارے سابقہ مظلوم شوہر یاد آتے ہیں
جو خدمت آنریری طور پر دن رات کرتے تھے
ہمیں اب سابقہ اپنے وہ نوکر یاد آتے ہیں
بقائے کا تقاضا جو نہ کرتے تھے کنڈیکٹر سے
کنڈیکٹر کو وہ سب ایسے پسنجر یاد آتے ہیں
ذرا سی بھی اگر رکھتے ہیں پاوں ایکسی لیٹر پر
ہمیں فی الفور سب ٹائر کے پنچر یاد آتے ہیں
وہ روتی ہے چیک شوہر سے فارن کیوں نہیں بھیجا
غلط سمجھے ہو تم! میڈم کو مسٹر یاد آتے ہیں
دیا کرتے تھے پٹوار ی جو ان کا تحفۃً لا کر
وہ افسر مال کو گھی کے کنستر یاد آتے ہیں
بدست خود جو ہم کو امتحاں میں نقل دیتے تھے
نیازؔ ! اب بھی ہمیں وہ اپنے ٹیچر یاد آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹھائي اگر تجھ کو پياري نہ ہوتي
تري توند پھر اتني بھاري نہ ہوتي
نہ ہوتا اگر کام درپيش تم سے
تو يوں روز تيمارداري نہ ہوتي
اگر ٹيم ميں اک بھي ہوتا کھلاڑي
تو ٹيم اپني ہر بار ہاري نہ ہوتي
قطر سے نہ لاتے اگر مال و دولت
محملے ميں عزت تمہاري نہ ہوتي
اگر چھوڑ کر وہ نہ مرتا وراثت
پس مرگ يوں آہ و زاري نہ ہوتي
اگر گرم کرتے نہ بابو کي مٹھي
تو آسان مشکل تمہاري نہ ہوتي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر چہ کھا کے رشوت بڑھ گئي ہے اس کي موٹائي
مگر چہرے پہ اب باقي نہيں پہلے سي رعنائي
غلط سمجھے ہو ليڈر قوم کے ہمدرد ہيں
کوئي دولت کا رسيا ہے کوئي کرسي کا شيدائي
ہمارے عہد ميں توقير کا معيار دولت ہے
شرافت کام آتي ہے ، نہ کام آتي ہے وانائي
کوئي ہم کو دلا دے کاش ايسي نوکري
برائے نام ہو تنخواہ پر انکم ہو بالائي
نہيں آتا ہے ان کو تيرنا چھوٹي سي ريا میں
سمندر کي مگر وہ ناپنے نکلے ہے گہرائي
گذشتہ روز ارجنٹ کال بک کروائي تھي ہم نے
برائے گفتگو نوبت مگر اب تک نہيں آئي
بہت مہنگا پڑا ہم کو نياز آنکھوں کا اپريشن
اسے بھي ہم گنوا بيٹھے جو تھي تھوڑي سي بينائي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھٹملوں کا نام مچھر کا نشاں کوئي نہ ہو
معرکے رشوت کے ہم ہر روز سر کرتے رہے
خدمت علم و ہنر ہم عمر بھر کرتے رہے
اور سب اعزاز حاصل بے ہنر کرتے رہے
دوپہر تک وہ ادھر آرام سے سوتا رہا
انتظار يار شب بھر ہم ادھر کرتے رہے
درد تو محسوس کرتا تھا ميں اپنے پائوں ميں
ڈاکٹر ليکن علاج درد سر کرتے رہے
ہم نے سوچا تھا بنيں گے پائلٹ ہم کبھي مگر
زندگي بھر بيل گاڑي ميں سفر کرتے رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعري کا مشغل گو ہر آن ہونا چاھيے
گھر ميں کھانے کا بھي کچھ سامان ہونا چاھيئے
ميرا بيٹا بات سچي کوئي بھي کرتا نہيں
ميرے بيٹے کو سياستدان ہونا چاھئيے
دفتري عملے کو رشوت دے چکا ہون بار ہا
اب تو ميرے کام کو آسان ہونا چائيے
جو غزل پر لاد کر لائے پچاس اشعار کو
ايسے شاعر کا بھي اب چالان ہونا چاھيئے
نام اس کوٹھي کا کيوں رکھا ہے کٹيا شيخ جي
نام جس کا قصر عالي شان ہونا چائيے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرجن سے تب ميڈيکل کا بوگس بل بنوايا ہے
ہم نے اس کے ہاتھ ميں پورے سو کا نوٹ تھمايا ہے
کپڑوں ميں اک بھڑ نے گھس کر ناک ميں دم کر رکھا تھا
يہ مت سمجھو ہم نے تم کو ڈسکو ناچ دکھايا ہے
ہم سے بڑھ کر اہل محلہ فيض اٹھاتے ہيں
ہم نے اپنے گھر ميں ٹيلي فون عبث لگوايا ہے
چور ہوئے جب گھر ميں داخل ہم نے شور مچايا تھا
اور ہمسائے سمجھے ہم نے انگلش گانا گايا تھا
ہم نے جب نذرانہ دے کر اس کے دل کو موم کيا
دفتر کے چپڑاسي نے تب صاحب سے ملوايا ہے
ميڈم نے بازار کو شايد شاپنگ کرنے جانا ہے
اس لئے ميک اپ سے اس نے چہرے کو چمکايا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ مجھے بھی جھوٹا سمجھتے تمام لوگ
صد شکر اپنے حلقے کا ممبر نہیں ہوں میں
دولت کی ریل پیل ہے اب گھر میں اس لیے
کسٹم کا اک کلرک ہوں ٹیچر نہیں ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود