سید مصطفیٰ حسین زیدی 10 اکتوبر 1930ء کو پیدا ہوئے. ان کے والد سید لخت حسین زیدی سی آئی ڈی کے اعلیٰ افسر تھے۔ مصطفیٰ زیدی نے الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور صرف 19 سال کی عمر میں ان کا شعری مجموعہ ”موج مری صدف صدف“ شائع ہوا تھا جس کا دیباچہ فراق گورکھپوری نے لکھا تھا اور ان کی شکل میں ایک بڑے شاعر کی پیش گوئی کی تھی۔ کسی حد تک تو یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی لیکن بے وقت موت نے ان کا شعری سفر اچانک ختم کر دیا۔ چالیس سال کی زندگی میں ان کے چھہ مجموعے موج مری صدف صدف، شہرِ آرزو،زنجیریں، کوہِ ندا اور قبائے ساز شائع ہوئے۔
شروع میں وہ تیغ الہ آبادی تخلص کرتے رہے۔
مصطفیٰ زیدی نے1952 میں گورنمنٹ کالج لاہور سےایم اے انگریزی کیا۔ اسلامیہ کالج کراچی اور پھرپشاور یونیورسٹی میں لیکچرر رہے ۔1954 میں سی ایس پی کے امتحان میں کامیابی کے بعد سرکاری افسر بن گئے۔ اس کے نتیجے میں آزادیِ فکر کا گلا گھونٹے جانے کی باز گشت ان کے اشعار میں سنی جا سکتی ہے۔
جس دن سے اپنا طرزِ فقیرانہ چھٹ گیا
شاہی تو مل گئی دلِ شاہانہ چھٹ گیا
1956 میں انگلستان سے تربیت حاصل کرنے کے بعد تمام یورپ اور مشرق وسطیٰ کی سیر کی. وطن واپس آکر سیالکوٹ، ڈیرہ غازی خان، اور مری میں اسسٹنٹ کمشنر اور پھرجہلم، نواب شاہ، خیرپور، ساہیوال، ساہیوال اور لاہور کے ڈپٹی کمشنر رہے. اعلی کارکردگی پر تمغہ قائداعظم ملا. 1969 میں ڈپٹی سیکریٹری بنیادی جمہوریت مقرر ہوئے.یہ ان کا آخری سرکاری عہدہ تھا. دسمبر1969 میں ملازمت سے معطل اورمئی 1970 میں برطرف کردیئے گئے. کہا جاتا ہے کہ ایک بدعنوان افسر کی رشوت قبول نہ کی تو اس کی سازش سےجنرل یحییٰ خاں کا شکار ہونے والے 303 افسران کی لسٹ میں نام ڈلوادیاگیا.
گوجرانوالہ کی ایک شادی شدہ عورت شہناز گل سے ان کی دوستی تھی، ملازمت اور اختیار نہ رہے تو اس نے بھی سرد مہری اختیار کی.
12 اکتوبر 1970ء کو مصطفیٰ زیدی کی لاش کراچی میں ان کے دوست کے بنگلے سے ملی. دوسرے کمرے میں وہی شہناز گل بے ہوش پڑی ملی. اسے شک کی بنا پر گرفتار کر لیا گیا. بعد میں تحقیقاتی کمیشن بنا، مقدمہ عدالت میں بھی گیا۔ یہ مقدمہ اخبارات نے اس قدر اچھالا کہ مہینوں دھواں دھار بحث ہوتی رہی۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ قتل نہیں بلکہ خودکشی تھی اور شہناز گل کو بری کر دیا۔
میں کس کےہاتھہ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوۓ ہیں دستانے
شہناز گل کے لیے مصطفیٰ زیدی نے کئی غزلیں اور نظمیں کہی تھیں جن میں یہ شعر بہت مشہور ہے:
فنکار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی
مصطفیٰ زیدی ، جوش ملیح آبادی سے متاثر تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی شاعری میں جوش جیسی گھن گرج نہیں ہے۔ لیکن زیدی نے بھی کربلا کے استعارے کو بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے:
ایسی سونی تو کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگیِ صبح وطن
میں اسی کوہ صفت خون کی ایک بوند ہوں جو
ریگ زارِ نجف و خاکِ خراساں سے ملا
جدید غز ل کی تشکیل میں مصطفیٰ زیدی کا بہت اہم حصہ ہے.
کچھہ اور شعر:
غمِ دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن
وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو
وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن
حدیث ہے کہ اصولاََ گناہ گار نہ ہوں
گناہ گار پہ پتھرسنبھالنے والے
خود اپنی آنکھہ کے شہتیر کی خبر رکھیں
ہماری آنکھہ سے کانٹے نکالنے والے
اب تو چبھتی ہے ہوا برف کے میدانوں کو
ان دنوں جسم کے احساس سے جلتا ہے بدن
مجھہ کو اس شہر سے کچھہ دور ٹھہر جانے دو
میرے ہم راہ میری بے سرو سامانی ہے
اس طرح ہوش گنوانا بھی کوئی بات نہیں
اور یوں ہو ش میں رہنے میں بھی نادانی ہے
طالب دستِ ہوس اور کئی دامن تھے
ہم سے ملتا جو نہ یوسف کے گریباں سے ملا
لوگوں کی ملامت بھی ہےِ خود درد سری بھی
کس کام کی اپنی یہ وسیع النظری بھی
کیا جانئیے کیوں سست تھی کل ذہن کی رفتار
ممکن ہوئی تاروں سے مری ہم سفری بھی
میں کس کےہاتھہ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہرنے پہنے ہوۓ ہیں دستانے
کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے
غمِ دل مرے رفیقو غمِ رائیگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی ہم زباں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو مہرباں نہیں ہے
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے
کسی آنکھہ کو صدا دو کسی زلف کو پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے