6؍مئی 1972*
استاد شاعر سیمابؔ اکبر آبادی کے شاگرد، لب و لہجے کے حوالے سے بے حد منفرد شاعر” سراج الدین ظفرؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
نام سراج الدین اور تخلص ظفرؔ تھا۔ ۲۵؍مارچ ۱۹۱۲ء کو جہلم میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۲۸ء میں میٹرک اور ۱۹۳۰ء میں ایف سی کالج لاہور سے ایف اے کیا۔ پھر کالج کی تعلیم چھوڑ کرہوابازی کی تعلیم شروع کی اور دہلی فلائنگ کلب سے ہوابازی کا اے کلاس لائسنس حاصل کیا۔ والد کے ناگہانی انتقال کے وجہ سے یہ سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ ۱۹۳۳ء میں ایف سی کالج سے بی اے کیا۔۱۹۳۵ء میں ایل ایل بی کیا۔ ابتدا میں انھوں نے وکالت شروع کی، لیکن جلد ہی اس پیشہ سے ان کی طبیعت اکتا گئی۔ دوسری جنگ عظیم میں افسر کی حیثیت سے ہوائی فوج میں بھرتی ہوگئے اور دس برس تک متعدد عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۵۰ء میں اس ملازمت کو خیرباد کہا اور تجارت کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی شاعری کرتے تھے۔ ان کے دوشعری مجموعے ’’زمزمۂ حیات‘‘ ۱۹۴۶ء اور ’’غزال وغزل‘‘ ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئے۔ ’’غزال وغزل‘‘ پر ۱۹۶۹ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔افسانوں کا مجموعہ ’’آئینے‘‘ ۱۹۴۳ء میں فیروز سنز نے شائع کیا۔ شروع میں انھوں نے سیمابؔ اکبرآبادی سے اصلاح لی۔ ۶؍مئی ۱۹۷۲ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:32
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر سراج الدین ظفرؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
نمود ان کی بھی دور سبو میں تھی کل رات
ابھی جو دور تہ آسماں نہیں گزرے
—
اے دوست اس زمان و مکاں کے عذاب میں
دشمن ہے جو کسی کو دعائے حیات دے
—
ہجومِ گل میں رہے ہم ہزار دست دراز
صبا نفس تھے کسی پر گراں نہیں گزرے
—
وہ تماشا ہوں ہزاروں مرے آئینے ہیں
ایک آئینے سے مشکل ہے عیاں ہو جاؤں
—
مخمور بوئے زلف نہ آئیں گے ہوش میں
چھڑکے ابھی نسیمِ بہاراں گلاب اور
—
ساغر اٹھا کے زہد کو رد ہم نے کر دیا
پھر زندگی کے جزر کو مد ہم نے کر دیا
—
اصلاح اہل ہوش کا یارا نہیں ہمیں
اس قوم پر خدا نے اتارا نہیں ہمیں
—
میں نے کہا کہ تجزیۂ جسم و جاں کرو
اس نے کہا یہ بات سپرد بتاں کرو
—
اٹھو زمانے کے آشوب کا ازالہ کریں
بنامِ گلُ بدناں رُخِ سوئے پیالہ کریں
—
شوق راتوں کو ہے در پے کہ تپاں ہو جاؤں
رقصِ وحشت میں اٹھوں اور دھواں ہو جاؤں
—
ہم میں کل کے نہ سہی حافظؔ و خیامؔ ظفرؔ
آج کے حافظؔ و خیامؔ ابھی باقی ہیں
—
دن کو بحر و بر کا سینہ چیر کر رکھ دیجئے
رات کو پھر پائے گل رویاں پہ سر رکھ دیجئے
—
ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے
میزانِ دلبری پہ انہیں تولتے رہے
—
یا رب سراب اہل ہوس سے نجات دے
مجھ کو شراب دے انہیں آب حیات دے
—
اس طرح شوقِ غزالاں میں غزل خواں ہو ظفرؔ
شہرتِ مشک غزلِ شہر ختن تک پہنچے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
سراج الدین ظفرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر...