نام سید ضامن علی نقوی ، تخلص گویاؔ ، جہاں آباد کے رہنے والے تھے۔
گویاؔ صاحب کا آبائی وطن قصبہ جہان آباد ضلع ایٹہ پیلی بھیت تھا لیکن ان کی ولادت 16 جنوری 1892ء کو ضلع ایٹہ میں ہوئی۔ عربی ، فارسی و اردو سے گھریلو تعلیم کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد سکول میں پڑھا اور فراغت حاصل کر کے معاشی تگ و دو میں لگ گئے، عرصہ دراز تک بریلی میں قیام رہا جہاں کچہری کے اچھے عہدہ پر فاائز رہے۔
شعر و شاعری سے فطری لگاؤ تھا ۔ زمانہ طالب علمی میں ہی شعر موزوں کرنے لگے تھے جوں جوں عمر میں اضافہ ہوتا گیا اور مشق سخن بڑھتی گئی تخیل میں وسعت اور کلام میں پختگی آتی گئی اور وہ مقامی و غیر مقامی مشاعروں میں بکثرت شرکت کرنے لگے وہ اپنے زمانہ کے خوش فکر و قادر الکلام شعر میں سے تھے اور جملہ اصناف شاعری پر طبع زمائی کرتے تھے نثر بھی بہت اچھی لکھتے تھے اور نثر و نظم میں کئی کتابوں کے مصنف تھے ۔
بحیثیت شاعر ، ادیب و فلسفی اپنے دور کے ادبی حلقوں میں خاصے نمایاں تھے ۔
ان کی ایک مثنوی " اسرار مستی" نے بڑی شہرت و مقبولیت حاصل کی تھی اس کی تعریف کرنے والوں میں علامہ اقبال بھی شامل تھے ۔
ہند و پاک کی آزادی کے بعد گویاؔ پاکستان آ گئے تھے اور یہاں کے ادبی حلقوں میں خاصے مقبول تھے کراچی میں مقیم تھے ، وہیں 10 ستمبر 1971ء کو آخری سانس لی اور ان کی ادبی و علمی سرگرمیوں کا خاتمہ ہو گیا جن کے ذریعہ سے وہ نصف صدی سے زائد عرصے تک اردو زبان و شاعری کی خدمت میں مصروف رہے ۔
تدفین کراچی میں ہوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور تصانیف
طلوع سحر
دور نو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمونہ کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انساں نے آانکھ کھولی ہے بزم شہود میں
آدم کے قبل آیا ہے عالم وجود میں
تسخیر ہی کو ارض و سما کے حدود میں
دیرینہ ایک جنگ ہے بود و نمود میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
ظلمت خلاف نور ہے وقت دراز سے
واقف نہیں اضافی افاضی کے راز سے
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کھلا یہ بھید سر طور و کربلا
دید و شہود کے بھھی مقامات ہیں جدا
۔۔۔۔۔۔۔۔
خود میں خدا کی دید شہادت کا اقتضا
نظارے کی طلب ہے تقاضا کلیم کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چشمِ کلیمؑ اِدھر ہے اُدھر قلب مصطفٰیﷺ
طالب کا وہ مقم یہ مطلوب ک پتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلی آتی ہیں موجیں اک جمال گل بداماں کی
بنائیں ہر قدم پر ڈالتی سو سو گلستاں کی
کھلا کرتی ہیں کلیاں آنکھ میں دل کے گلستاں کی
دم نظارہ نظریں پھول برساتی ہیں انساں کی
نہ دل سمجھا ، نہ غم سمجھے ، نہ دنیا ساز و ساماں کی
یہ کیا سرگوشیاں تھیں چپکے چپکے اشک و مژگاں کی
لیے بیٹھا ہوں آنسو دیر سے دامان مثگاں میں
سرپ داستاں ہوں شبنم و برگِ گلستاں کی
جہاں سے بزم ہستی میں ہوا ہے خاک پروانہ
وہیں سے برق چمکی ہے کسی کے حسن پنہاں کی
ٹھہر اے سوز نظارہ کہ لو دینے لگے آنسو
حبابوں سے شعاعیں پھوٹ نکلیں آتش جاں کی
پڑا ہوں سر بسجدہ پھر رہا ہے کوئی نظروں میں
جبیں سائی میں منزل ہے نیاز دراز پنہاں کی
فروغ شعلہء شبنم سے حیرااں مہ و انجم
نظر ہے قطرہء ناچیز پر ، مہر درخشاں کی
مرے اشکوں کی فطرت ہے مسلسل جستجو گویاؔ
ستارے منزلیں طے کر رہے ہیں کوئے جاناں کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم
منزل مہر و ماہ
ستاروں میں ہوئی آہٹ کسی کے پاؤں دھرنے کی
تحیر سے نظر چاروں طرف ااہلِ نظر نے کی
فرشتوں نے کہا دیکھو تو یہ انداز کس کے ہیں
سکوتِ شب کے پردے میں خرم راز کس کے ہیں
مہ و پرویں کو اپنا رستہ کس نے بنایا ہے
ستاروں سے یہ سوئے عرش جانے کون آیا ہے
سہر مہتاب پر ہے آج یہ نقش قدم کس کا
جبین مہ کو چمکا رہا ہے یہ کرم کس کا
الٰہی یہ کوئی سیارہء فردوس اعلٰی ہے
کہ حدِ قرب کی آبادیوں کا ایک اجالا ہے
جہان آفرینش نے کہا یہ تو مرا "دل" ہے
کہ حاصل جلوہء تخلیق کا " انسان کامل" ہے
رسائی ہے اسی کی سرحد ادراک سے آگے
مقام آدمیت ، منزل افلاک سے آگے
فلک نے ، نور کے رستے میں خود آنکھیں بچھائی ہیں
ستاروں نے ضیائیں ، چاند ہی کے در سے پائی ہیں
مکمل شمع محفل کا دو عالم میں اجالا ہے
یہی وہ چاند ہے ، جس کا یہ عالم ایک ہالا ہے
اسی کی زندگی سے زندگی قائم ہے عالم کی
دم خورشید سے تابندگی قائم ہے عالم کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود