نواب محمد یوسف علی خاں نام، ناظم تخلص۔ 4 فروری 1816ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ نواب محمد سعید خاں والئ رام پور کے فرزند تھے۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ شروع میں مومن سے اصلاح لی۔ ان کے انتقال کے بعد غالب کو کلام دکھانے لگے۔
منطق اور فلسفے کے ماہر تھے۔ مولانا فضل حق خیرآبادی، مرزا غالب، میر حسین تسکین مظفر علی اسیر اور دوسرے علما اور شعرا ان کے دامن دولت سے وابستہ تھے۔
20 اپریل 1865ء کو رام پور میں بعارضہ سرطان انتقال کرگئے۔ صاحب دیوان تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیا بھی کوئی دل میں گیا بھی کوئی دل سے
آنا نظر آیا نہ یہ جانا نظر آیا
اے ہجر وقت ٹل نہیں سکتا ہے موت کا
لیکن یہ دیکھنا ہے کہ مٹی کہاں کی ہے
عکس سے اپنے وہ یوں کہتے ہیں آئینہ میں
آپ اچھے ہیں مگر آپ سے اچھا میں ہوں
ہزار رنج ہیں اب یہ بھی اک زمانا ہے
کوئی ملال نہ تھا وہ بھی اک زمانا تھا
کبھی یہ فکر کہ وہ یاد کیوں کریں گے ہمیں
کبھی خیال کہ خط کا جواب آئے گا
کہے گی حشر کے دن اس کی رحمت بے حد
کہ بے گناہ سے اچھا گناہگار رہا
کچھ خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے
رات بھر کون تری یاد میں بیدار رہا
کیا رشک ہے کہ ایک کا ہے ایک مدعی
تم دل میں ہو تو درد ہمارے جگر میں ہے
نہ درد تھا نہ خلش تھی نہ تلملانا تھا
کسی کا عشق نہ تھا وہ بھی کیا زمانا تھا
شب فراق کچھ ایسا خیال یار رہا
کہ رات بھر دل غم دیدہ بے قرار رہا
اس بزم میں جو کچھ نظر آیا نظر آیا
اب کون بتائے کہ ہمیں کیا نظر آیا
مجھے وہ یاد کرتے ہیں یہ کہہ کر
خدا بخشے نہایت باوفا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد