آج – 3؍جولائی 1927
اردو کے ممتاز شاعر” محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام محمد عبد الحمید صدیقی، تخلص نظرؔ لکھنوی، 3 جولائی 1927ء کو لکھنؤ موضع 'چنہٹ ' میں پیدا ہوئے۔ ہائی سکول کی تعلیم موضع اُترولہ ضلع گونڈہ سے 1944ء میں مکمل کی اور 1945ء میں ملٹری اکائونٹس لکھنؤ میں ملازم ہو گئے۔ دسمبر 1947ء کو پاکستان ہجرت کی اور ملٹری اکائونٹس راولپنڈی میں تعینات ہوئے۔ اس طرح راولپنڈی دارالہجرت قرار پایا۔ پہلی اہلیہ کا 5 جنوری 1958ء کو راولپنڈی میں انتقال ہوا۔ ان سے پانچ اولادیں ہوئیں جن میں سے تین بیٹے شیر خوارگی کی عمر میں ہی وفات پا گئے اور دو اولادیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی حیات رہے ۔عقد ثانی 1960ء میں کیا جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری اہلیہ کا انتقال بھی3جنوری 1980ء میں راولپنڈی میں ہوا۔ ملازمت کے آخری دس سال فیلڈ پے آفس(FPO)، آرٹلری سنٹر اٹک شہر میں گزارے اور وہیں سے 1979ء میں چونتیس سالہ ملازمت کے بعد اپنی بیمار اہلیہ کی تیمار داری کے لئے بحیثیت اکائونٹنٹ ریٹائرمنٹ لے لی۔ اپنی عمر کے آخری دس سال اسلام آباد میں گزارے۔ 3؍جنوری 1994ء کو وفات پائی۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
ممتاز شاعر محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
کہیے کس درجہ وہ خورشیدِ جمال اچھا ہے
مختصر یہ کہ وہ آپ اپنی مثال اچھا ہے
دوسروں کے دلِ نازک کا خیال اچھا ہے
کوئی پوچھے تو میں کہہ دیتا ہوں حال اچھا ہے
آئے دن کی تو نہیں ٹھیک جنوں خیزیٔ دل
موسمِ گل تو یہ بس سال بہ سال اچھا ہے
مجھ کو کافی ہے میں سمجھوں گا اسے حسن جواب
بس وہ فرما دیں کہ سائل کا سوال اچھا ہے
یہ جو بگڑا تری تقدیر بگڑ جائے گی
دل ہے دل یہ اسے جتنا بھی سنبھال اچھا ہے
اس سے زائل ہو نظرؔ اس سے ہو دل تک روشن
روئے خورشید سے وہ روئے جمال اچھا ہے
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
ﺩﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﯿﮑﮍﻭﮞ ﻓﺘﻨﮯ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﺑﮧ ﺭُﻭﺋﮯ ﺑﺰﻡ ﻏﻢِ ﺩﻝ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﮨﻢ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺎ ﻣﻠﻤﻊ ﭼﮍﮬﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﯾﻤﺎﮞ ﮐﯽ ﻗﻮﺗﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺛﺒﺎﺕ
ﺟﺐ ﺭﺍﮦِ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺪﻡ ﮈﮔﻤﮕﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻏﻢ ﺑﺠﮫ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﻨﺎ ﭼﻤﮏ ﺍﭨﮭﯽ
ﺑﺰﻡِ ﺗﺼﻮﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺁﭖ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﯾﺎ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ ﻣﻘﺪﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﯿﮟ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﭽﮭﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺷﺎﺧﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺳﺮﺑﺮﯾﺪﮦ ﮨﯿﮟ ﻏﻨﭽﮯ ﭘﺮﯾﺪﮦ ﺭﻧﮓ
ﺍﮨﻞِ ﭼﻤﻦ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﮔﻞ ﮐﮭﻼﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﺮﯾﻢِ ﻧﺎﺯ ﮐﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﺭﮮ ﮐﺸﺶ
ﺳﺎﺭﮮ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮭِﻨﭻ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻟﻮﮒ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮧ ﺟﺴﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮩﯿﮟ
ﺑﺲ ﺗﮩﻤﺖِ ﺣﯿﺎﺕ ﻧﻈﺮؔ ﮨﻢ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
واقفِ آدابِ محفل بس ہمیں مانے گئے
ان کی محفل میں ہمیں شائستہ گردانے گئے
مٹتے مٹتے مٹ گئے راہِ وفا میں لوگ جو
بعد والوں میں نشانِ راہ وہ مانے گئے
کچھ نقوشِ عہدِ رفتہ خیر سے اب بھی تو ہیں
لاکھ بگڑی میری صورت پھر بھی پہچانے گئے
دودھ کے مجنوں تو مل جائیں گے اب بھی ہر جگہ
خون دیں لیلیٰ کو اپنا ایسے دیوانے گئے
سوزِ الفت کا اثر تھا دیدنی مطلوب میں
شمع بھی گھلتی گئی مرتے جو پروانے گئے
کچھ درخشندہ حقائق مجھ سے جو منسوب تھے
کم نصیبی سے مری بنتے وہ افسانے گئے
عقل الجھی ہی رہی چون و چرا میں اے نظرؔ
عشق میں دل کے کیے سب فیصلے مانے گئے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
محمّد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ