آج – 21؍اکتوبر 1931
ماہرِ علمِ کیمیا، مترجم، ناول نگار ' امراؤ جان' کے محرر اور ممتاز شاعر” مرزاؔ ہادی رسواؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
مرزاؔ رسواؔ ، محمد ہادی، اصل نام محمّد ہادی اور مرزاؔ تخلص تھا۔ ناول نگاری کے لیے انھوں نے ایک نیا نام مرزا رسواؔ اختیار کیا۔ مرزا کا سنہ پیدائش ۱۸۵۸ء ہے۔ مرزا نے رڑکی انجینئرنگ کالج سے اورسیری کا امتحان پاس کیا اور کوئٹہ میں ۷۰ روپیہ ماہوار پر ملازم ہوگئے۔ اسی دوران علمِ کیمیا کا شوق پیدا ہوا جس کی وجہ سے نوکری بھی چھوڑنی پڑی۔ جب روپیہ ختم ہوگیا تو لکھنؤ کرسچین کالجیٹ اسکول میں فارسی کے ٹیچر ہوگئے۔معلمی کے دوران پنجاب یونیورسٹی سے ایف اے اور بی اے پاس کیے۔ شاعری میں پہلے انھو ں نے مرزا دبیرؔ سے رجوع کیا، مگر جلد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ بعد میں مرزا دبیرؔ کے صاحبزادے مرزا جعفر اوج سے اصلاح لینا شروع کی۔ مرزا نے آمدنی بڑھانے کے لیے ترجموں اور ناول نگاری کی طرف توجہ کی۔۱۹۰۲ء میں مرزا کو ہیئت اور نجوم سے دلچسپی ہوگئی۔ تصنیف وتالیف اور شاعری وعلم ادب کا سلسلہ لکھنؤ میں۱۹۲۰ء تک جاری رہا۔۱۹۲۰ء کے آخر یا ۱۹۲۱ء کے آغاز میں مرزا حیدرآباد دکن گئے اور دارالترجمہ میں ملازم ہوگئے۔ مرزا ٹائیفائیڈ کے مرض میں ۲۱؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئے۔
مرزا نے کتب فلسفہ کے ترجمے کیے۔ موسیقی سے انھیں بہت شوق تھا۔ ان کی مذہبی معلومات بہت وسیع تھیں۔ سائنس سے انھیں خاص دلچسپی تھی۔ وہ کیمسٹری کے بڑے ماہر تھے۔ مرزا نے شارٹ ہینڈ مینول پر بھی کام کیا۔انھوں نے متعدد مثنویاں لکھیں۔ ’’امراؤجان ادا‘‘ ناول کے علاوہ کئی اور ناول تحریر کیے ۔ مرزا ہمہ جہت شخص تھے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:230
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
استاد شاعر مرزا ہادی رسواؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
بت پرستی میں نہ ہوگا کوئی مجھ سا بدنام
جھینپتا ہوں جو کہیں ذکرِ خدا ہوتا ہے
—
اطوار ترے اہلِ زمیں سے نہیں ملتے
انداز کسی اور حسیں سے نہیں ملتے
—
بعد توبہ کے بھی ہے دل میں یہ حسرت باقی
دے کے قسمیں کوئی اک جام پلا دے ہم کو
—
چند باتیں وہ جو ہم رندوں میں تھیں ضرب المثل
اب سنا مرزا کہ درد اہل عرفاں ہو گئیں
—
دیکھا ہے مجھے اپنی خوشامد میں جو مصروف
اس بت کو یہ دھوکا ہے کہ اسلام یہی ہے
—
ہنس کے کہتا ہے مصور سے وہ غارت گر ہوش
جیسی صورت ہے مری ویسی ہی تصویر بھی ہو
—
ہم کو بھی کیا کیا مزے کی داستانیں یاد تھیں
لیکن اب تمہید ذکرِ درد و ماتم ہو گئیں
—
ہم نشیں دیکھی نحوست داستانِ ہجر کی
صحبتیں جمنے نہ پائی تھیں کہ برہم ہو گئیں
—
کس قدر معتقد حسنِ مکافات ہوں میں
دل میں خوش ہوتا ہوں جب رنجِ سوا ہوتا ہے
—
کیا کہوں تجھ سے محبت وہ بلا ہے ہمدم
مجھ کو عبرت نہ ہوئی غیر کے مر جانے سے
—
بہت سے مدعی نکلے مگر جاں باز کم نکلے
پسِ مجنوں ہزاروں عاشقوں میں ایک ہم نکلے
—
مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات
تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی
—
ہجر میں نالہ و فریاد سے باز آ رسواؔ
ایسی باتوں سے وہ بے درد خفا ہوتا ہے
—
انہیں کا نام لے لے کر کوئی فرقت میں مرتا ہے
کبھی وہ بھی تو سن لیں گے جو بدنامی سے ڈرتے ہیں
—
مرزاؔ کو بھی پردا نہیں والا منشوں کی
اچھا ہے جو اس خاک نشیں سے نہیں ملتے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
مرزا ہادی رسواؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ