منشی مہاراج بہادر ورما برقؔ دہلوی۔
ولادت 1884ء دہلی۔
آبائی وطن ضلع ایٹہ۔ وطنِ ثانی دہلی۔
تلمذ: آغا شاعر قزلباش۔
پوسٹل آڈٹ آفس ، دہلی میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز رہے ۔
وفات 9 فروری 1936ء پانی پت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب برقؔ دہلوی یعنی منشی مہاراج بہادر صاحب برقؔ ماہ جولائی 1884ء میں بمقام دہلی پیدا ہوۓ ۔ آپ کے آباؤ اجداد کا قدیم وطن سکیٹ ضلع ایٹہ ہے۔
پہلا شعر اور اس کی شانِ نزول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتداۓ سنِ شعور کا زمانہ تھا ۔ آپ کی آنکھیں دُکھتی تھیں ۔ ایک دوست نے پوچھا ۔
کہو کیا حال ہے۔
بیساختہ آپ کی زبان سے یہ شعر نکلا
؎ دل تو آتا تھا مگر اب آنکھ بھی آنے لگی
پختہ کاری عشق کی یہ رنگ دکھلانے لگی
ماہِ فروری 1905ء میں شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ ایک کوہِ الم ٹوٹ پڑا تعلیم ناتمام رہ گئی اور حوادثِ زمانہ سے مجبور ہو کر اکتساب علم کا شوق آتشِ پوش کی طرح دل میں دبا رہا ۔ بالآخر موقع ہاتھ آنے پر 1918ء میں آپ نے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا ۔ دوسرے سال ایف اے اور 1920ء میں بی اے پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا ۔ بعد ازاں 1923ء میں سب آرڈیننٹ اکاؤنٹ سروس کے ڈیارٹمنٹل امتحان میں کامیابی حاصل کی اور پوسٹل آڈٹ آفس دہلی میں سپرٹنڈنٹ کے عہدے پر فائض رہے۔
ابتدائی زمانہ میں آپ نے نواب فصیح الملک بہادر داغؔ دہلوی کے ایما سے جن سے اولاً رجوع کیا تھا کچھ غزلیں افسر الشعرا جناب آغا شاعر صاحب قزلباش دہلوی کو دکھائیں اور ان سے استفادہ سخن کیا ۔ لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ کی طبیعت غزل گوئی کی بہ نسبت ادبی ۔ اخلاقی اور نیچرل نظموں کی جانب مائل ہوئی۔
آپ کی سب سے پہلی نظم " عمل خیر" کے عنوان سے جنوری 1908ء میں رسالہ زبان دہلی میں شائع ہوئی جو بہت پسند کی گئی اس کا ایک بند ملاحظہ ہو
شریکِ دردِ دل ہو کر کسی کا دکھ بٹایا ہے
مصیبت میں کسی آفت زدہ کے کام آیا ہے
پرائی آگ میں پڑ کر کبھی دل بھی جلایا ہے
کسی بیکس کی خاطر جان پر صدمہ اٹھایا ہے
کبھی آنسو بہاۓ ہیں کسی کی بد نصیبی پر
کبھی دل تیرا بھر آیا ہے مفلس کی غریبی پر
۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ 9 فروری 1936ء کو پانی پت میں وفات پا گۓ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ ﺑﺮﻕؔ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیرازہ بندِ دفترِ امکاں ہے شانِ حق
سرچشمۂ حیات ہے فیضِ روانِ حق
بارانِ لطف ہے کرمِ جاودانِ حق
ذرے زبانِ حال سے ہیں تر زبانِ حق
رنگِ نوائے راز ہے ہستی کے ساز میں
در پردہ بس رہی ہے حقیقت مجاز میں
تابش فزائے ماہِ نظر تاب ہے وہی
ضو بخشِ برقِ غیرتِ سیماب ہے وہی
نزہت دِہِ رخِ گلِ شاداب ہے وہی
زینت فروزِ عالمِ اسباب ہے وہی
حق کی ضیا سے نور کا مطلع جہان ہے
ذروں میں آفتابِ درخشاں کی شان ہے
روئے مجاز عکس ہے حق کی صفات کا
پرتو اس آئینے میں ہے انوارِ ذات کا
حق اصلِ کُل ہے سلسلۂ کائنات کا
اعجازِ حق ہے راز طلسمِ حیات کا
ظلمت سرائے دہر میں ہے حق کی روشنی
جلوہ فشاں ہے قادرِ مطلق کی روشنی
زیبِ ریاضِ دہر اگر فیضِ حق نہ ہو
رنگیں کتابِ خندۂ گل کا ورق نہ ہو
نیرنگِ دل فریب بہارِ شفق نہ ہو
مہرِ مبیں سے چرخ کا روشن طبق نہ ہو
ایوانِ شش جہت میں برستا جو نور ہے
حق تو یہ ہے یہ جلوۂ حق کا ظہور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورِ غریباں
عبرت کا سماں گورِ غریباں سے عیاں ہے
ویرانہء خاموش پہ بستی کا گماں ہے
خوابیدہ یہاں ہستیء گم کردہ نشاں ہے
گنجینیہء نایاب تہِ خاک نہاں ہے
جو زیست نہ رُولے تھے گہر دھول ہوۓ ہیں
گُلچہرہ حسینوں کے یہیں پھول ہوۓ ہیں
راحت کدہء اہلِ جہاں ہے یہی منزل
ہنگامہء ہستی سے سکوں ہے یہیں حاصل
آراستہ گوشہ میں محفل تہِ محفل
مہمانوں سے خالی کوئی جا ہو گی مشکل
کھنچ کھنچ کے چلے آتے ہیں سب کی یہ روش ہے
کیا جانیۓ اس خاک میں کس درجہ کشش ہے؟
آغوشِ زمیں میں خاک کے پُتلوں سے ہے آباد
ہر ذرہ ہے اک ہستیء برباد کی روداد
ہر لحظہ ہے تاراجِ اجل ، عالمِ ایجاد
پیش آنی ہے انجام میں سب کو یہی افتاد
شیرازہ عناصر کا بکھر جاتا ہے آخر
پیمانہ ہے جو عمر بھر جاتا ہے آخر
مٹی کے کھلونوں کا ہے گھر شہرِ خموشاں
بربادوں سے آباد ہے یہ خطہء ویراں
شاہوں کا تجمل ہے یہاں خاک بداماں
اسرارِ ہستیء فانی کے ہین عریاں
مٹنے سے اماں کس کو تہِ چرخ بریں ہے؟
جو نقش ابھرتا ہے وہ پیوندِ زمیں ہے
غافل! یہ ہے انجامِ بقا بھر کے نظر دیکھ
اس منظرِ دلدوز کو بادیدہء تر دیکھ
کیا دیکھتا ہے دہر کے جلوؤں کو ادھر دیکھ
تجھ کو اسی منزل کا ہے در پیش سفر دیکھ
اس جادہء پُر پیچ میں رکھ پاؤں سنبھل کر
عمر اپنی یہاں وقف ہے حُسنِ عمل کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راضی برضا
شکوہ نہ بیش و کم کا ، غم کا نہ کچھ گلا ہے
جس چیز کے تھے قابل، ملنا تھا جو ، ملا ہے
شانِ کرم سے قائم ہستی کا سلسلہ ہے
شکرِ کریم دل کے آئینہ کی جِلا ہے
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
جو نعمتیں ملیں ہیں وہ کم ہیں یا ہیں وافر
ہر حال میں ہے لازم تقدیر پر ہوں شاکر
رنگَ ظہورِ قدرت ہر ذرے سے ہے ظاہر
اول بھی تو ہے برحق مالک ہے تو ہی آخر
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
فیض عجیم تیرا دنیا میں چار سُو ہے
تاروں میں نور تیرا ، پھلوں میں تیری بو ہے
سر بہرِ شکر نعمت خم تیرے روبرو ہے
پُتلے ہیں ہم خطا کے بندہ نواز تو ہے
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
جس حال میں رکھے تو داتا ہمیں ہے رہنا
پھولوں میں یا تُلنا، یا درد و رنج سہنا
ہم نے ہے سر سے پا تک ملبوسِ شکر پہنا
دل میں یہی تمنا منہ سے یہی ہے کہنا
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
حاصل ہو سر بلندی یا ہو نصیب پستی
دوسرِ مۓ طرب ہو ، یا عہدِ فاقہ مستی
ہو عیش و شادمانی یا رنج و تندستی
تسلیم اپنا شیوہ ، مسلک ہے حق پرستی
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
سازَ حیات کیا ہے سامان ہے یہ تیرا
جو اصلِ زندگی ہے ، عرفان ہے یہ تیرا
سر چشمہء کرم تو ، فیضان ہے یہ تیرا
بخشی ہیں نعمتیں جو احسان ہے تیر
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
خوانِ کرم پہ تیرے مہمان ہے زمانہ
ملتا ہے رزق بن کر قسمت کا دانہ دانہ
جود و سخا کا مخزن ہے تیرا آستانہ
کیوں برقؔ کے ہو لب پر ہر دم نہ یہ ترانہ
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود