آج – 29؍جون 2019
ماہرِ لسّانیات ، اردو زبان کے ممتاز و معروف شاعر”لیاقت علی عاصم صاحب “ کا یومِ وفات…
نام لیاقت علی عاصم، ١٤ ؍اگست ١٩٥١ء کو کوکن،بھارت میں پیدا ہوئے ۔ والد حاجی علی شرگاؤکر نے قرارداد پاکستان منظور ہونے کے فوراً بعد مغرب کا رخ کیا۔ کراچی کے ساحلی علاقے، منوڑا میں ڈیرا ڈالا اور کے پی ٹی میں ملازم ہو گئے۔ کوکنی برادری کے کئی افراد نے آنے والے برسوں میں اس علاقے میں سکونت اختیار کی۔ ایک بہن، آٹھ بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ گھر بھر کے لاڈلے تھے۔ پرورش میں والدہ کے ساتھ بڑی بہن اور بڑی بھابی کا کلیدی کردار رہا۔ آٹھویں تک تعلیم منوڑا سے حاصل کی۔ کھارادر کے ایک اسکول سے ١٩٦٨ء میں سائنس سے میٹرک کیا۔ پھر ایس ایم سائنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایک سال آوارہ گردی کی نذر ہوا۔ پھر اسلامیہ کالج کا حصہ بن گئے۔ انٹر کے بعد اپنا بوجھ خود ڈھونے کی خواہش پر 320 روپے ماہ وار پر کے پی ٹی میں ملازم ہو گئے اور سگنل ٹاور پر ذمے داری سنبھال لی۔ روشنی کو پیغامات کے قالب میں ڈھالنے کا فن سیکھنے کے لیے چھ ماہ کا کورس ہوتا تھا، جو اُنھوں نے ڈیڑھ ماہ میں پاس کر لیا۔ دو برس وہاں ملازمت کی۔ اُسی زمانے میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کیا۔ خواہش تھی کہ یونیورسٹی میں پڑھا جائے۔ شعبۂ صحافت میں داخلہ نہیں ہوا، تو عارضی طور پر شعبۂ اردو کا حصہ بن گئے۔ پھر وہیں دل لگ گیا۔ اُسی مضمون میں ماسٹرز کیا۔
اردو لغت بورڈ میں 1980ء سے 2011ء تک خدمات انجام دیں، بحیثیت ایڈیٹر سبکدوش ہوئے۔ لیاقت علی عاصم کے کل آٹھ شعری مجموعے اردو دنیا میں مقبول ہوئے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ 1977ء میں سبدِ گل کے نام سے شائع ہوا اور آخری مجموعہ انتقال سے ایک ہفتے قبل شائع ہونے والا شعری مجموعہ میرے کَتبے پہ اُس کا نام لِکھو تھا۔
لیاقت علی عاصم، ٢٩؍جون ٢٠١٩ء کو دورہ قلب بند ہونے سے وفات پا گئے ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
ممتاز شاعر لیاقت علی عاصم کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
فکرِ معاش دن یہ دکھائے تو کیا کروں
ماں کی دعا بھی کام نہ آئے تو کیا کروں
—
بہت روئی ہوئی لگتی ہیں آنکھیں
مری خاطر ذرا کاجل لگا لو
—
بہت ضخیم کتابوں سے چن کے لایا ہوں
انہیں پڑھو ورق انتخاب ہیں مرے دوست
—
بتان شہر تمہارے لرزتے ہاتھوں میں
کوئی تو سنگ ہو ایسا کہ میرا سر لے جائے
—
اس سفر سے کوئی لوٹا نہیں کس سے پوچھیں
کیسی منزل ہے جہان گزراں سے آگے
—
کبھی یہ غلط کبھی وہ غلط کبھی سب غلط
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
—
منانا ہی ضروری ہے تو پھر تم
ہمیں سب سے خفا ہو کر منا لو
—
میری راتیں بھی سیہ دن بھی اندھیرے میرے
رنگ یہ میرے مقدر میں کہاں سے آیا
—
شام کے سائے میں جیسے پیڑ کا سایا ملے
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
—
وہ جو آنسوؤں کی زبان تھی مجھے پی گئی
وہ جو بے بسی کے کلام تھے مجھے کھا گئے
—
زمانوں بعد ملے ہیں تو کیسے منہ پھیروں
مرے لیے تو پرانی شراب ہیں مرے دوست
—
ذرا سا ساتھ دو غم کے سفر میں
ذرا سا مسکرا دو تھک گیا ہوں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
لیاقت علی عاصم
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ