قراۃ العین حیدر کی پیدائش 20 جنوری 1926ء کو علی گڑھ اُترپردیش میں ہوئی ۔ ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم ، جن کا شمار اردو کے مشہور کہانی نویسوں میں ہوتا ہے ۔ یوپی کے ایک ایسے پڑھے لکھے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جن کے افراد دربار مغلیہ میں سہ ہزاری پنج ہزاری اور منصب دار وغیرہ رہے تھے ۔ ان کے نگڑدادا سید حسن ترمذی وسط ایشیا سے ہندوستان آۓ تھے اور ان کے گھرانے کی عورتیں بھی پڑھی لکھی تھیں ۔ یلدرم کی نانی سیدہ ام مریم نے قرآن شریف کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا تھا ۔
1857ء میں ان کے پردادا امیر احمد علی نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا جس کے نتیجے میں ان کی جاگیر وغیرہ ضبط ہو گئی ۔ بعد میں ان کے والد سید جلال الدین یدر اور ان کے چھوٹۓ بھائی سید کرار حیدر نے انگریزی تعلیم حاصل کر کے سرکاری ملازمت اختیار کی ۔ سید جلال حیدر شہر بنارس کے حاکم مقرر ہوۓ اور انھیں خان بہادر کے خطاب سے نوازا گیا ۔ سید کرار حیدر یوپی میں سول سرجن رہے اور ان کا شمار صوبے کے مشہور ڈاکٹروں میں ہوتا تھا ۔
سجاد حیدر یلدرم 1880ء میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے بی اے کیا اور الٰہ آباد یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی ۔ بعد میں انھوں نے ایم اے او کالج میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا ۔اس دوران وہ نواب اسمٰعیل خاں تعلقدار میرٹھ اور راجہ صاحب محمود آباد کے سیکرٹری بھی رہے ۔ پھر وہ بغداد میں برطانوی کونسل خانے میں ترکی مترجم کی حیثیت سے مقرر ہوئے۔
پہلی جنگِ عظیم کے کچھ دن پہلے انہیں سابق امیر کابل یعقوب خاں کا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کر کے ہندوستان بھیج دیا گیا ۔ 1912ء میں ان کی شادی نذر زہرا بیگم سے ہوئی۔
امیرِ کابل کی وفات کے بعد ان کی خدمات یوپی سرکار سول سروس میں منتقل کر دی گئیں ۔ 1920ء میں جب ایم اے او کالج مسلم یونیورسٹی بنا تو انھیں اس کا پہلا رجسٹرار مقرر کیا گیا ۔ وہ شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اعزازی صدر بھی رہے اور ان کا شمار انجمن اردوۓ معلٰی کے بانیوں میں بھی ہوتا ہے ۔ 1928ء میں حکومت نے انھیں یونیورسٹی سے بلا کر جزائرانڈیمان نکوبار میں ریونیو کمشنر بنا کر بلئیر بھیج دیا ۔ واپس آنے پر غازی پور اور اٹاوہ کے اضلاع میں رعینات رہے ۔ 1935ء میں خرابی صحت کی بنا پر ملازمت سے سبکدوش ہو گئے ۔
قرۃ العین کی والدہ نذر سجاد حیدر کی ولادت 1894ء میں صوبہ سرحد میں ہوئی تھی ۔ ان کے پردادا معصوم علی مصنف " انشاۓ معصوم" سلطنت اودھ میں ناظم اور چکلہ دار تھے ۔ اور ان کے دادا خان بہادر میر قائم علی کو پنجاب کے قانون اراضی کی تشکیل و تنظیم کے لیے منتخب کیا گیا ۔ نذر کے والد میر نذر الباقر فوج کے محکمہ سپلائی میں بہ طور ایجنٹ صوبہ سرحد میں مامور رہے ۔
شادی سے پیشتر بنت نذر الباقر کے نام سے تہذیب نسواں ، پھول اور دیگر رسائل میں مضامین لکھا کرتی تھیں ۔ ان کا پہلا ناول اختر النساء بیگم 1908ء میں دار الاشاعت لاہور سے شائع ہوا جبکہ ان کی عمر صرف 14 برس تھی ۔ 1912ء میں ان کی شادی ہوئی اور وہ نذر سجاد حیدر کے نام سے لکھنے لگیں ۔ انھوں نے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا اور کئی اسلامی ممالک کی سیاحت کی ۔
قرۃ العین حیدر کی ابتدائی زندگی پورٹ بلئیر جزائر انڈیمان میں گزری اور ابتدائی تعلیم انھوں نے دہرہ دون میں حاصل کی ۔ پھر وہ لکھنؤ کے مشہور ازبیلی تھوبرن کالج میں داخل ہوئیں اور وہاں سے بی اے کیا ۔ اس کے بعد وہ لکنؤ یونیورسٹی میں داخل ہوئیں اور وہاں سے 1947ء میں انفریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے گورنمنٹ اسکول آف آرٹس لکھنؤ اور ہیڈ میز سکول آف آرٹس لندن میں تعلیم پائی ۔
قرۃ العین حیدر نے پہلی کہانی صرف چھ برس کی عمر میں لکھی ۔ تاہم ان کی یہ کہانی کہیں شائع نہیں ہوئی( ان کی پہلی تخلیق " بی چوہیا" کی کہانی بچوں کے اخبار پھول لاہور میں اشاعت پذیر ہوئی جبکہ ان کی عمر تیرہ برس تھی) پانچ سال بعد ان کی کہانی " یہ باتیں" لاہور کے مشہور رسالے ہمایوں (1942) میں شائع ہوئی ۔
11 اپریل 1943ء کو ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم کی لکھنؤ میں وفات ہو گئی ۔ عینی اپنی ابتدائی کہانیوں میں انگریزی کا استعمال کثرت سے کرتی تھیں لٰہذا ایک خاتون نے ان کی کہانی کا سرسری مطالعہ کرتے ہوۓ کہا تھا ۔۔۔۔ آپ انگریزی بہت اچھا لکھتی ہیں ۔ اسی طرح میرے بھی صنم خانے ہیں ، پر مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے تبصرہ کیا تھا کہ اس کتاب میں سواۓ پارٹیوں کے تذکرے کے اور کچھ نہیں ۔
تقسیم پاکستان کے بعد وہ کچھ مدت پاکستان میں سکونت پذیر رہیں ۔ 1950ء میں وہ پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات میں انفارمیشن آفیس مقرر ہوئیں اور لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں پریس اٹیچی کی حیثیت سے بھی تعینات رہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ڈاکومنٹری فلموں کے پروڈیسر کے علاوہ پاکستانی کوارٹرلی کے ایکٹنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتی رہیں ۔ کچھ دنوں انھوں نے پاکستان ائیر لائینز میں بھی کام کیا ۔ اسی اثنا میں ان کا شہرت یافتہ ناول " آگ کا دریا" شائع ہوا جس پر پاکستان میں ایک بحث و تنازعہ شروع ہو گیا اور پھر چھٹۓ دہے کے ابتدائی برسوں میں وہ پاکستان سے مستقل طور پر ہندوستان آ گئیں ۔
1964ء سے 68ء کے دوران وہ امپرنٹ بمبئی کی کیرئیر ایڈیٹر رہیں ۔ 1968ء سے 1975ء کے دوران وہ مشہور انگریزی ہفتہ وار السٹرٹیڈ ویکلی آگ انڈیا کی مدیر معاون رہیں ۔ وہ سنٹرل بورڈ آف فلمز سے بھی منسلک رہیں ۔
1967ء میں انھیں افسانوں کے مجموعے " پت جھڑ کی آواز" پر ساہتیہ اکادمی میں ایوارڈ دیا گیا اور اسی برس 19 اکتوبر کو ان کی والدہ نذر سجاد حیدر کی طویل علالت کے بعد بمبئی میں وفات ہوئی ۔ 1969ء میں انھیں تراجم پر سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ عطا کیا گیا ۔
1984ء میں پدم شری اور غالب ایوارڈ ملا
1990ء میں انھیں ان کی ادبی خدمات پر ہندوستان کا سب سے بڑا اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا جو اس سے پیشتر اردو میں صرف مشہور اردو شاعر فراق گورکھپوری کو ہی عطا کیا گیا تھا ۔
وفات
21 اگست 2007ء( ساڑھے تین بجے شب) کیلاش ہسپتال نوئیڈا میں ان کا انتقال ہوا
نماز جنازہ ، بعد نمازِ عصر ، میدان ، جامع مسجد، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں ادا کیا گیا ۔
تدفین: جامعہ کے اس خاص قبرستان میں ہوئی جہاں علم و ادب کی عظیم شخصیات المرتبت شخصیات یعنی مختار احمد انصاری ، عابد حسین ، صالحہ عابد حسین ، غلام السیدین ، غلام الثقلین ، پروفیسر نور الحسن ، بیگم انیس قدوائی ، شفیق الرحمٰن قدوائی ، سجاد ظہیر ، رضیہ سجاد ظہیر وغیرہ دفن ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانوں کے مجموعے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ۔ ستاروں سے آگے ( 1947ء)
2۔ شیشے کے گھر ( مکتبہ جدید ، لاہور ، 1954ء)
3 ۔ پت جھڑ کی آواز ( مکتبہ جامعہ ، نئی دہلی ، 1967ء)
4 ۔ روشنی کی رفتار ۔ ( ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ ، 1982ء)
5 ۔ جگنوؤں کی دنیا ( انجمن ترقی اردو ہند ، 1990)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بھی صنم خانے ( 1949ء)
2۔ سفینہ غم دل ( 1952ء)
3 ۔ آگ کا دریا ( 1959ء)
4 ۔ آخر شب کے ہمسفر ( 1971ء)
5 ۔ کارِ جہاں دراز ہے ( دو جلدوں میں ) ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۔ سنگ میل پبلیکشینز ، لاہور 1990ء
6 ۔ گردشِ رنگِ چمن ( ایجوکیشنل پبللشنگ ہاؤس دہلی 1988ء)
7 ۔ چاندنی بیگم ( ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۔ 1989ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔
ناولٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار ناولٹ (1989ء)
1 ۔ دلربا ۔ 2 ۔ سیتا ہرن ۔ 3 ۔ چاۓ کا باغ ۔ 4 ۔ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رپورتاژ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ۔ ستمبر کا چاند ، درچمن ہر ورقی دفتر حال و گزشت ( نقوش ، لاہور)
2 ۔ کوہ و دماند ( آج کل ، نئی دہلی)
3 ۔ گل گشت ( گفتگو ، بمبئی)
4 ۔ خضر سوچتا ہے ( بک بابی تمثیل ، جہانِ دیگر ، آج کل اردو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تراجم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ۔ ہمیں چراغ ہمیں پروانے ( از ھنری جمیسن)
2 ۔ آپس کے گیت ( از واسل ہائی کوف)
3 ۔ ماں کی کھیتی ( از چنگیز اعتمادوف(
4 ۔ آدمی کا مقدر ( از میخائل شولوخوف)
5 ۔ کلیسا میں قتل ( از ٹٰ۔ ایس ۔ ایلیٹ)
6 ۔ تلاش ( از ٹرومین کایوٹ)
7 ، لیووکیہ
،،
انھوں نے بچوں کے ادب کے متعلق بھی کام کیا ہے جن میں زیادہ تراجم ہیں ان میں سے چند یہ ہیں :
1 ۔ بہادر ۔ 2 ۔ لومڑی کے بچے ۔ 3 ۔ میاں ڈھینچوں کے بچے ۔ 4 ۔ حسن عبدالرحمٰن ۔ 5 ۔ بھیڑیے کے بچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود