وہ 13 اکتوبر 1900ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید ممتاز علی دیوبند ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے جو خود بھی ایک بلند پایہ مصنف تھے۔ تاج کی والدہ بھی مضمون نگار تھیں۔ ان کی اہلیہ حجاب امتیاز علی بھی اُردُو کی ایک کہنہ مشق ادیبہ تھیں جنہوں نے کئی یاد گار افسانے لکھے۔
تاج نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ سنٹرل ماڈل اسکول سےمیٹرک اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کی سند حاصل کی۔ انہیں بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈراما سے دلچسپی تھی ۔ ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ ’’ کہکشاں‘‘ نکالنا شروع کردیا۔ ڈراما نگاری کا شوق کالج میں پیدا ہوا۔ گورنمنٹ کالج ڈرامیٹک کلب کے سرگرم رکن تھے۔
بائیس برس کی عمر میں ڈراما ’’ انار کلی‘‘ لکھا جو اردو ڈراما کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ بچوں کے لیے کئی کتابیں لکھیں ، کئی ڈرامے اسٹیج ، فلم اور ریڈیو کے لیے تحریر کیے۔ بہت سے انگریزی اور فرانسیسی ڈراموں کا ترجمہ کیا اور یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ ’’ قرطبہ کا قاضی‘‘ انگریز ڈراما نویس لارنس ہاؤس مین کے ڈرامے کا ترجمہ ہے اور ’’ خوشی‘‘ پیٹرویبر فرانسیسی ڈراما نگار سے لیاگیا ہے۔ چچا چھکن ان کی مزاح نگاری کی عمدہ کتاب ہے۔ اس کے علاوہ’’ محاصرہ غرناطہ ‘‘ (ناول) اور’’ ہیبت ناک افسانے‘‘ بھی مشہور ہوئے۔
تاج کو حکومت پاکستان نے ستارۂ امتیاز سے نوازا۔
امتیاز علی تاج مجلس ترقی ادب لاہور سے بھی وابستہ رہے۔ آپ کی زیر نگرانی مجلس نے بیسیوں کتابیں شائع کیں۔
19 اپریل 1970ء کو رات کے وقت دونقاب پوشوں نےامتیاز علی تاج کو قتل کردیا۔ اس قتل کا آج تک سراغ نہیں ملا۔
رضا حمید بتاتے ہیں:
امتیاز علی تاج وسیع جاۂیداد کے مالک تھے لیکن ان کی نرینہ اولاد نہیں تھی اس لۓ قریبی رشتہ دار اس جاۂیداد سے حصے کے خواہاں تھے. عدالت میں تاج مرحوم کی بیٹی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ تاج مرحوم نے شیعہ مسلک اختیار کر لیا تھا، جس میں اولاد ہی حق دار ہوتی ہے، بیٹی ہو یا بیٹا. ان کے شیعہ مسلک اختیار کرنے کے ثبوت کے طور پر اخباری اشتہار بھی پیش کئے گئے. کیس کا فیصلہ تاج صاحب کی بیٹی مشہور براڈکاسٹر یاسمین طاہر کے حق میں ہو گیا. یہ محض ایک شرعی حیلہ بھی ہو سکتا ہے.
ڈاکٹر محمد سلیم ملک نے امتیاز علی تاج پر پی ایچ ڈی کی، وہ بتاتے ہیں:
سید امتیاز علی تاج کی والدہ سنی مسلک کی تھیں ۔ وہ چوک لکشمی کے پاس مومن پورہ قبرستان میں اس لئے دفن کی گئیں کہ اُن کی نہایت عزیز سہیلی اشرف النِسا شیعہ مسلک کی تھیں اور وہ وہاں دفن کی گئیں ، جس پر تاج کی والدہ نے وصیت کی کہ انہیں ان کی سہیلی کے پہلو میں دفن کیا جائے ۔ ان کی وصیت کا اس قدر احترام کیا گیا کہ تاج کی والدہ محمدی بیگم کی میت شملہ سے لاہور لاکر ان کی سہیلی کے پہلو میں سپرد خاک کی گئی ۔ حالاں کہ تاج کے والد شمس العلما مولوی ممتاز علی دیو بند کے عالم اور پکے سُنی تھے ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ آج سے سو سال پہلے علما حضرات کس قدر عالی ظرف تھے ۔
عقیل عباس جعفری صاحب نے بتایا ہے کہ محمدی بیگم کا 1908 میں صرف تیس برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ حال ہی میں نعیم طاہر نے ان پر ایک کتاب شائع کی ہے.
فاروق خالد صاحب :
امتیاز علی تاج کی بیگم حجاب امتیاز علی ایک کہنہ مشق ادیبہ تھیں جنہوں نے کئی یاد گار افسانے لکھے۔ لاہور میں شملہ پہاڑی کے پاس ان کی کوٹھی تھی۔ مَیں اپنی نوجوانی میں ایک دفعہ انہیں وہاں مِلنے گیا تھا، اور ملاقات کا واحد سبب سی٘د صاحب کی تحریروں کی ان کے منہ پر تعریف کرنا تھا۔ محاصرہءغرناطہ " لیلے' " کے نام سے بھی شائع ہوا تھا۔ " ایک کرسی کی سرگذشت " بھی غالبا انہی کا لکھا ہوا ایک دلچسپ مضمون ہے جسے مَیں نے اپنے بچپن میں پڑھا تھا۔