شوق بہرائچی جنکا پورا نام سید ریاست حسین رضوی تھا کی پیدائش اجودھیا ضلع فیض آباد کے محلہ سیدواڑا میں ایک زمیندار طبقہ سے تعلق رکھنے والے سید سلامت علی رضوی کے گھر میں 06 جون 1884ء کو ہوئی تھی۔
شوق صاحب تلاش معاش میں بہرائچ آئے اور پھر یہیں کے ہوکے رہ گئے۔
شوق کے کمزور جسم پر ایک شیروانی ٹنگی رہتی تھی جو جسم کی ساخت کے آگے سے لٹکی ہوئی اور پیچھے سے اچکی ہوئی رہتی تھی۔پیٹ کے پاس کے دو تین بٹن بند رہتے تھے باقی کھلے رہتے تھے۔ہوسکتا ہے ایک آدھ بٹن ٹوٹا بھی رہتا رہاہو۔ داہنے ہاتھ میں پرانی سی چھڑی ،سر پر تیل خوردہ کشتی دار ٹوپی اور بازار سے گھر آتے وقت بائیں ہاتھ میں ایک پڑیا جس میں کوئی نہ کوئی مٹھائی رہتی تھی ۔
علمی لیاقت کے اعتبار سے وہ صفر تھے لیکن یہ وہی صفر تھا جسے کسی گنتی کے داہینی طرف لگا دیا جائے تو اس کی قیمت دس گنا بڑھ جاتی ہے
شوقؔ کا حال کچھ ایسا ہی تھا اردو ہندی انگریزی اور فارسی زبان کے الفاظ پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔شروع میں غزلیں کہتے تھے پر انکی چلبلی طبیعت نے کروٹ بدلی اور غزل سے قطع تعلق کر کے وہ طنز و مزاح کی دنیا میں آگئے ۔
شوق کی زندگی کے آخری دور میں یہ چہ میگوئیاں ہوتی رہتی تھی کہ شوق ؔ نے غزلیں لکھنا بند نہیں کیا بلکہ اجرت لیکر دوسرے شاعروں کے لیے لکھا کرتے تھے۔ شوق نے جب بہرائچ سے اپنا ادبی سفر شروع کیا تو یہاں شعر و شاعری کا عام چرچا تھا ۔ جگرؔ بسوانی کے ہم عصر رفعت ؔ بہرائچی ،حکیم محمد اظہر ؔ وارثی ،جمال ؔ بابا،شفیعؔ بہرائچی، بابو لاڈلی پرساد حسرتؔ سورج نرائن آرزو،مولانا سید سجاد حسین طور ؔ جونپوری ثم نانپاروی، پیارے میاں رشید لکھنوی کے شاگرد سید محمد اصغر نانپاروی ،ابوالفضل شمسؔ لکھنوی ،حکیم نبی احمد نجم خیرآبادی ،تعلقدار وصی حیدر جرولی کی غزل گوئی چھائی ہوئی تھی جو شہر بہرائچ اور نانپارہ و جرول جیسے مردم خیز اور ادب نواز قصبوں میں رہتے تھے۔ شاعر و ادیب شارق ربانی کا کہنا ہے کہ طنز و مزاح کے شاعروں میں شوقؔ بہرائچی کا شمار اکبر الہ آبادی کے بعد ہوتا ہے ۔شوق ؔ طنز و مزاح کے نامور شاعر تھے۔
عمر کے آخری ایام میں بوڑھے شوق کے لاغر جسم کو دمہ کے پرانے مرض نے بدحال کر دیا تھا ۔
بیماری اور بے روزگاری نے زندگی کو بہت دشوار بنا دیا تھا ۔شوق کو حکومت کی طرف سے ایک مختصر سی رقم بطور وظیفہ ملتی تھی لیکن یہ سلسلہ صرف ایک سال کے لئے تھا۔اس وقت کے وزیر انصاف سید علی ظہیر صاحب کسی سلسلہ میں بہرائچ آئے تھے اور شوق کی عیادت کے لئے بھی شوق کے گھر گئے تھے۔شوق کی کسمپرسی اور علالت سے وزیر صاحب بہت متاثر ہوئے اور سرکاری مدد اور پنشن دلانے کا وعدہ کر لیا لیکن لیڈران کے وعدے کبھی پورے نہیں ہوتے ۔چنانچہ بستر مرگ پر پڑے ہوئے آدمی سے کیا گیا وعدہ بھی اور وعدوں کی طرح وفا نہیں ہو سکا اور شوقؔ بہرائچی مدد کے انتظار میں راہی ملک عدم ہو گئے ،اسی سلسلہ میں شوقؔ نے ایک قطعہ لکھا تھا
” سانس پھولے گی ،کھانسی سوا آئے گی
لب پہ جان حزیں بار ہا آئے گی
دار فانی سے جب شوقؔ اٹھ جائے گا
تب مسیحا کے گھر سے دوا آئے گی“
شوقؔ بہرائچی کی وفات 13 جنوری1964ء بہرائچ میں ہوئی اور آزاد انٹر کالج کے پچھم واقع قبرستان چھڑے شاہ تکیہ میں تدفین ہوئی۔
بشکریہ: وکی پیڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہ جبینوں کی محبت کا نتیجہ نہ ملا
مرغیاں پالیں مگر ایک بھی انڈہ نہ ملا
حسن خود بیں نہ ملا حسن خود آرا نہ ملا
جب میں سسرال گیا ایک بھی سالا نہ ملا
کس طرح جاتا کوئی منزل مقصد کی طرف
کوئی یکہ کوئی تانگہ کوئی رکشا نہ ملا
نظر آیا نہ کہیں ناصح ناداں میرا
جستجو جس کی تھی وی مٹی کا ببوا نہ ملا
اب کی ناکام رہا قائد ملک و ملت
اب کی بربادئ اقوام کا ٹھیکہ نہ ملا
شیخ صاحب کے تلون کا فسوں ہے یہ بھی
مسجدوں میں کبھی اک مٹی کا بدھنا نہ ملا
اے غم دوست ضیافت میں تری کیا کرتا
ایک خوراک سے راشن ہی زیادہ نہ ملا
لاکھ بازار محبت کے لگاۓ پھیرے
بے وقوفی کے سوا ااور کوئی سودا نہ ملا
کس طرح سے کوئی تعمیر نشیمن کرتا
کبھی ستلی نہ ملی اور کبھی سیٹھا نہ ملا
دوست کی شیریں بیانی کا مزا کیا کہۓ
ایسی برفی کبھی ایسا کبھی پیڑا نہ ملا
رکھے ہی رکھے ہوئی جنس کرم سب برباد
ایک بھوکے کو مگر پاؤ بھر آٹا نہ ملا
ہاتھ آۓ گا نہ پروانہء جنت اے قوم
شیخ صاحب کو اگر حلوا پراٹھا نہ ملا
کس طرح سے کسی تعمیر کی ہوتی تکمیل
وقت پر جب کبھی اینٹا کبھی گارا نہ ملا
آج شمشیر برہنہ وہ لیے پھرتے ہیں
جن کے گھر میں کبھی اک بانس کا پھٹا نہ ملا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی بزم عیش و نشاط میں یہ مرض سنا ہے کہ عام ہے
کسی لومڑی کو ملیریا کسی مینڈکی کو زکام ہے
یہ عجیب ساقئ ماہ وش ترے مے کدے کا نظام ہے
ہوا جیسے تو بھی دیوالیہ نہ تو خم نہ مے ہے نہ جام ہے
یہاں ذکر آب و طعام کیا یہاں کھانا پینا حرام ہے
یہاں برت رکھتے ہیں روز سب یہاں روز ماہ صیام ہے
نہ تو متفق کسی امر میں نہ تو متحد کسی کام میں
مرے لیڈروں کا دماغ ہے کہ حماقتوں کا گودام ہے
ابھی ہے غریبوں کی چشم تر ابھی ان کے حال پہ اک نظر
ابے انقلاب ٹھہر ذرا ابھی تجھ سے اور بھی کام ہے
میں سنا چکا ہوں ہزار بار انہیں درد و یاس کی داستاں
نہ یقین ہو تو وہ پوچھ لیں کہ گواہ ٹیلی گرام ہے
ابھی اس کو جسم تو ڈھکنے دو ابھی اس کو پیٹ تو بھرنے دو
ابھی اس کو فکر عوام کیا ابھی ننگا بھوکا نظام ہے
وہی خادمانہ روش رہے یہ خیال رہبری چھوڑ دو
اسے پی سکو گے نہ دوست تم یہ بہت ہی گاڑھا قوام ہے
تجھے اپنے اور پراۓ کا نہیں کچھ شعور ابھی تلک
مرے جاں نثاروں کی لسٹ میں ذرا دیکھ تیرا بھی نام ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جب دیکھی گئی میری تڑپ میری پریشانی
پکڑ کر ان کو جھوٹنے کھینچ لایا شوق عریانی
لباس ایجاد کر ایسا کوئی اے عقل انسانی
کہ تن پوشی کی تن پوشی ہو عریانی کی عریانی
معاذ اللہ وہ کافر ادا کو حسن پنہانی
کہ اب خطرے میں ہے ہر اک مسلماں کی مسلمانی
بتا دیتی ہے بڑھ کر ان کے جلووں کی فراوانی
کہ گھر سے بے حجابانہ نکل آئی ہے مغلانی
معاذ اللہ جناب شیخ کا یہ جوش ایمانی
سمجھتے ہیں بتوں کے حکم کو آیات قرآنی
جسے دیکھو رکھے ہے سر پہ اپنے تاج سلطانی
ہنسی ٹھٹھا سمجھ رکھا ہے ہر اک نے جہاں بانی
تمنائیں مری پامال یوں کرتا ہے وہ ظالم
کسی موضع میں جیسے کھیت جوتے کوئی دہقانی
ہر اک کی خاطریں حسب مراتب ہوں گی دوزخ میں
وہ ناصح ہوں کہ زاہد ہوں کہ ملا ہوں کہ ملانی
خدا محفوظ رکھے فطرت انساں سے عالم میں
مؤدب ہو کے کہتا ہے جسے شیطاں بھی استانی
سدا حرص و ہوس سے دور رہنا چاہۓ ہم دم
یہ دونوں ہیں بڑی فتنہ جٹھانی ہو کہ دیورانی
بقدر ذوق تکمیل تمنا شوقؔ کیا ہوتی
کہ ہم نے عورتیں پائیں کبھی اندھی کبھی کانی
ہیں یکساں زاہد کم عقل ہوں یا ناصح ناداں
کھلونے سب برابر ہیں وہ چینی ہوں کہ جاپانی
وہ ناصح ہوں کہ واعظ ہوں کہ قاعد ہوں کہ رہبر ہوں
انہیں لوگوں سے پھیلی ہے جہاں میں نسل انسانی
جفائیں ہم پہ ہوتی ہیں کرم غیروں پہ ہوتا ہے
یہاں گرتے ہیں اولے اور وہاں برساتے ہیں پانی
مجھے برباد کر کے دوست پچھتانے سے کیا حاصل
نہ لڑھکا دے تمھیں دوزخ میں یہ شیطان کی نانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺧﻮﻑ ﺍﮎ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﯾﺎ ﻟﺮﺯ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺎﻏﺬ
ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﻧﮯ ﺟﻮ ﻣﻮﮌﺍ ﮐﺎﻏﺬ
ﻧﮧ ﺗﻮ ﻧﯿﻼ ﻧﮧ ﺗﻮ ﭘﯿﻼ ﻧﮧ ﺗﻮ ﺍﺟﻼ ﮐﺎﻏﺬ
ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻠﻮﻥ ﮐﻮ ﺗﺮﻧﮕﺎ ﮐﺎﻏﺬ
ﺻﻔﺤۂ ﺩﻝ ﭘﮧ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺏ ﺩﺍﻍ ﮨﯽ ﺩﺍﻍ
ﮔﻮﺩ ﮈﺍﻻ ﮐﺴﯽ ﮐﻤﺒﺨﺖ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﮐﺎﻏﺬ
ﺑﺎﻏﺒﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺘﻢ ﻭ ﺟﻮﺭ ﺟﻮ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ
ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺭﻡ ﮐﺎ ﺭﻡ ﺍﻭﺭ ﺩﺳﺘﮧ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﮧ ﮐﺎﻏﺬ
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﻮ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﻭﻓﺎ
ﮔﺎﺅﮞ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺮﺯﮦ ﮐﺎﻏﺬ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﻠﻢ ﺩﺍﻥ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺍﺏ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﭩﺎ ﮐﺎﻏﺬ
ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﺨﯿﻞ ﮐﯽ ﺩﯾﺎﻧﺖ ﮐﻮﺋﯽ
ﺟﯿﺴﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﻧﺲ ﮐﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﺎﻏﺬ
ﻇﻠﻢ ﮈﮬﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮯ ﺗﻘﺼﯿﺮ
ﺭﻭﺯ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﺩﮮ ﮐﺎ ﺳﺎﺩﮦ ﮐﺎﻏﺬ
ﺩﺍﺳﺘﺎﮞ ﮔﯿﺴﻮﺋﮯ ﭘﯿﭽﺎﮞ ﮐﯽ ﺟﻮ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ
ﻓﺎﺅﻧﭩﻦ ﭘﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﮩﺖ ﺍﻟﺠﮭﺎ ﮐﺎﻏﺬ
ﺩﻡ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻧﮧ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﺎ ﻏﺒﺎﺭ
ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﯿﻼ ﮐﺎﻏﺬ
ﺑﮭﯿﺠﻨﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮎ ﻣﺎﮦ ﺟﺒﯿﮟ ﮐﺎ ﺧﻂ ﺷﻮﻕ
ﺷﻮﻕؔ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﺎﻏﺬ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮨﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﻭﻋﺪﮮ ﮐﺎ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﺟﺐ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﮐﯿﺎ ﺷﯿﺦ ﻭ ﺑﺮﮨﻤﻦ ﭘﮧ ﮐﺮﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ
ﺗﺴﺒﯿﺢ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ ﻧﮧ ﺯﻧﺎﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﺍﺱ ﺟﻨﺒﺶ ﭼﺘﻮﻥ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭻ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻗﺎﺗﻞ ﮐﺎ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮨﺮ ﻭﺍﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﭼﺎﮨﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺏ ﺗﺮﮎ ﺗﻐﺎﻓﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ
ﮨﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﯽ ﻏﻔﻠﺖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺁﺯﺍﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﻣﺪﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺩﻡ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺍﻣﺎﮞ ﻧﮯ
ﺍﺏ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﯾﮧ ﺣﺸﺮ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﮨﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﺮﮮ ﺣﺴﻦ ﺗﻠﻮﻥ ﮐﮯ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ
ﺍﻗﺮﺍﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ ﻧﮧ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﺗﯿﻎ ﮐﺎ ﻣﺎﻧﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻮﮨﺎ
ﮨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﺗﺠﮫ ﭘﺮ ﺗﺮﮮ ﮨﺮ ﻓﻌﻞ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ
ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﮨﮯ ﮔﺰﯾﭩﯿﮉ ﺗﺮﺍ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﺍﺏ ﺣﺴﻦ ﻓﺮﻭﺷﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺼﺮ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ
ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻧﺨﺎﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﺗﻮ ﻻﮐﮫ ﮐﺮﮮ ﭼﮩﺮۂ ﺯﯾﺒﺎ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﺶ
ﮨﻮﮔﺎ ﻧﮧ ﺗﺮﮮ ﺣﺴﻦ ﮐﺎ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﭼﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﻣﺮﺍ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﺗﮧ ﺗﯿﻎ
ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﺮﺍ ﻋﺰﻡ ﺳﺮ ﺩﺍﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺳﮑﮧ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﻓﮑﺮ ﺳﺨﻦ ﮐﺎ
ﺍﮮ ﺷﻮﻕؔ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺮﮮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔