آج – 8؍فروری 2016 ممتاز ترین جدید شاعروں میں شامل، مقبولِ عام شاعر، ممتاز فلم نغمہ نگار اور نثر نگار، اپنی غزل ’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا۔۔۔۔‘ کے لئے مشہور شاعر” نداؔ فاضلی صاحب “ کا یومِ وفات ہے۔
نام مقتداحسن فاضلی اور تخلص نداؔ ہے۔ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ندا فاضلی دعاڈبائیوی کے صاحبزادے ہیں۔ بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ بمبئی میں فلمی نغمہ نگاری کرتے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’لفظوں کا پل‘‘ کے نام سے چھپ گیا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’کھویا ہوا سا کچھ‘‘، ’’دیواروں کے باہر‘‘، ’’دیواروں کے بیچ‘‘(خود نوشت)، ’’شہر میرے ساتھ چل تو‘‘، ’’مورناچ‘‘(مجموعہ کلام)، ’’ملاقاتیں‘‘(خاکے) ۔ مہاراشٹر اردو اکادمی، بمبئی اور ساہتیہ پریشد ، بھوپال سے ان کی کتابوں پر انعامات ملے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:335
مقبولِ عام شاعر نداؔ فاضلی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت
اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا
بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے رستہ روکے راہوں میں
چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار ملا
جسے نگاہ ملی اس کو انتظار ملا
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
اس کا قصور یہ تھا بہت سوچتا تھا وہ
وہ کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گیا
اچھی نہیں یہ خامشی شکوہ کرو گلہ کرو
یوں بھی نہ کر سکو تو پھر گھر میں خدا خدا کرو
پر شور راستوں سے گزرنا محال تھا
ہٹ کر چلے تو آپ ہی اپنے سزا ہوئے
جس سے بھی ملیں جھک کے ملیں ہنس کے ہوں رخصت
اخلاق بھی اس شہر میں پیشہ نظر آئے
دیکھا ہوا سا کچھ ہے تو سوچا ہوا سا کچھ
ہر وقت میرے ساتھ ہے الجھا ہوا سا کچھ
چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب
سوچتے رہتے ہیں کس راہ گزر کے ہم ہیں
کوئی کسی کی طرف ہے کوئی کسی کی طرف
کہاں ہے شہر میں اب کوئی زندگی کی طرف
زمیں دی ہے تو تھوڑا سا آسماں بھی دے
مرے خدا مرے ہونے کا کچھ گماں بھی دے
فہرست مرنے والوں کی قاتل کے پاس ہے
میں اپنے ہی مزار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں
اس کو کھو دینے کا احساس تو کم باقی ہے
جو ہوا وہ نہ ہوا ہوتا یہ غم باقی ہے
ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت
رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی
نہ جانے کون سا منظر نظر میں رہتا ہے
تمام عمر مسافر سفر میں رہتا ہے
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اڑایا جائے
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے