آج – 16؍اکتوبر 1950
ممبئی کے اہم جدید شاعر، سنجیدہ شاعری کے حلقوں میں مقبول” عبدالاحد سازؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
عبدالاحد سازؔ ممبئی کے ایک معروف شاعر ہیں۔ ١٦؍اکتوبر ١٩٥٠ء کو ممبئی میں پیدا ہوئے۔ ان کی شاعری مہاراشٹرا اسٹیٹ بورڈ کے نصاب میں داخل ہے۔ "خاموشی بول اٹھی ہے" (1990)، "سرگوشیاں زمانوں کی" (2003) ان کی اہم مطبوعات ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کی بنا پر انہیں مہاراشٹرا اسٹیٹ اردو اکادمی ایوارڈ، مغربی بنگال اردو اکادمی ایوارڈ و دیگر انعامات سے نوازا گیا۔
٢٢؍مارچ ٢٠٢٠ء کو عبدالاحد سازؔ، ممبئی میں انتقال کر گئے۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مقبول شاعر عبدالاحد سازؔ صاحب کے منتخب اشعار کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
کبھی نمایاں کبھی تہہ نشیں بھی رہتے ہیں
یہیں پہ رہتے ہیں ہم اور نہیں بھی رہتے ہیں
—
مرنے کی پختہ خیالی میں جینے کی خامی رہنے دو
یہ استدلالی ترک کرو بس استفہامی رہنے دو
—
سوال کا جواب تھا جواب کے سوال میں
گرفت شور سے چھٹے تو خامشی کے جال میں
—
میری آنکھوں سے گزر کر دل و جاں میں آنا
جسم میں ڈھل کے مری روح رواں میں آنا
—
آئی ہوا نہ راس جو سایوں کے شہر کی
ہم ذات کی قدیم گپھاؤں میں کھو گئے
—
دوست احباب سے لینے نہ سہارے جانا
دل جو گھبرائے سمندر کے کنارے جانا
—
شعر اچھے بھی کہو سچ بھی کہو کم بھی کہو
درد کی دولت نایاب کو رسوا نہ کرو
—
وہ تو ایسا بھی ہے ویسا بھی ہے کیسا ہے مگر؟
کیا غضب ہے کوئی اس شوخ کے جیسا بھی نہیں
—
خبر کے موڑ پہ سنگ نشاں تھی بے خبری
ٹھکانے آئے مرے ہوش یا ٹھکانے لگے
—
مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے
گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں
—
برا ہو آئینے ترا میں کون ہوں نہ کھل سکا
مجھی کو پیش کر دیا گیا مری مثال میں
—
یادوں کے نقش گھل گئے تیزاب وقت میں
چہروں کے نام دل کی خلاؤں میں کھو گئے
—
شاعری طلب اپنی شاعری عطا اس کی
حوصلے سے کم مانگا ظرف سے سوا پایا
—
سازؔ جب کھلا ہم پر شعر کوئی غالبؔ کا
ہم نے گویا باطن کا اک سراغ سا پایا
—
میں ایک ساعت بے خود میں چھو گیا تھا جسے
پھر اس کو لفظ تک آتے ہوئے زمانے لگے
—
اب آ کے قلم کے پہلو میں سو جاتی ہیں بے کیفی سے
مصرعوں کی شوخ حسینائیں سو بار جو روٹھتی منتی تھیں
—
میں ترے حسن کو رعنائی معنی دے دوں
تو کسی شب مرے اندازِ بیاں میں آنا
—
شکست وعدہ کی محفل عجیب تھی تیری
مرا نہ ہونا تھا برپا ترے نہ آنے میں
—
مرے مہ و سال کی کہانی کی دوسری قسط اس طرح ہے
جنوں نے رسوائیاں لکھی تھیں خرد نے تنہائیاں لکھی ہیں
—
داد و تحسین کی بولی نہیں تفہیم کا نقد
شرط کچھ تو مرے بکنے کی مناسب ٹھہرے
—
مشابہت کے یہ دھوکے مماثلت کے فریب
مرا تضاد لیے مجھ سا ہو بہو کیا ہے
—
نیک گزرے مری شب صدق بدن سے تیرے
غم نہیں رابطۂ صبح جو کاذب ٹھہرے
—
مری رفیق نفس موت تیری عمر دراز
کہ زندگی کی تمنا ہے دل میں افزوں پھر
—
عبث ہے راز کو پانے کی جستجو کیا ہے
یہ چاک دل ہے اسے حاجت رفو کیا ہے
—
خرد کی رہ جو چلا میں تو دل نے مجھ سے کہا
عزیز من ''بہ سلامت روی و باز آئی''
—
کھلے ہیں پھول کی صورت ترے وصال کے دن
ترے جمال کی راتیں ترے خیال کے دن
—
حسرتِ دید نہیں ذوقِ تماشا بھی نہیں
کاش پتھر ہوں نگاہیں مگر ایسا بھی نہیں
—
جانے قلم کی آنکھ میں کس کا ظہور تھا
کل رات میرے گیت کے مکھڑے پہ نور تھا
—
خیال کیا ہے جو الفاظ تک نہ پہنچے سازؔ
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
عبدالاحد سازؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ