آج مجاہدِ آزادی رائے احمد خاں کھرل کا یومِ شہادت ہے۔اس شہید کی شہادت کو آج پورے 165برس ھو چکے ہیں۔
رائے احمد خاں کھرل شہید (1776ء-1857ء) 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران، نیلی بار کے علاقے میں مقامی قبیلوں کی برطانوی راج کے خلاف بغاوت (گوگیرہ بغاوت) کے رہنما اور سالار تھے۔ 21 ستمبر کو انگریزوں اور سکھوں کے فوجی دستوں نے گشکوریاں کے قریب ‘نورے دی ڈل’ کے مقام پر دورانِ نماز احمد خان پر حملہ کر دیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اگر راوی کی روایت کو کسی کھرل پر فخر ہے تو وہ رائے احمد خان کھرل ہے جس نے برصغیر پر قابض انگریز سامراج کی بالادستی کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا اور بالآخر ان کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی جان تک دے ڈالی۔
رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا جو اب ضلع فیصل آباد میں واقع ہے۔ 1776ء میں رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہونیوالے رائے احمد خاں میں انگریز دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
1857ء کی جنگ آزادی کے دوران جب دلی میں قتل و غارت کی گئی اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اُٹھی۔ جگہ جگہ بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔ انگریز سرکار کی جانب سے صدر مقام میں لارڈ برکلے نامی گورے کو اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا گیا ۔ جون کی ایک صبح، برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان، برکلے کو ملے۔ انگریز افسر نے بغاوت سے نبٹنے کے لیے گھوڑے اور جوان مانگے۔ احمد خان نے جواب دیا؛
“صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا” اور یہ کہہ کر واپس چلا گیا۔ ایک انگریز افسر کی سرکاری چٹھی کے مطابق ڈرانے دھمکانے کے جواب میں احمد خاں کھرل کہنے لگا کہ اس نے حکومت برطانیہ کی اطاعت کو رد کر دیا ہے اور اب خود کو شہنشاہ دہلی کی رعایا تسلیم کرتا ہے جس سے اسے تمام ملک میں بغاوت کرانے کے احکامات ملے ہیں۔
اس کے بعد برکلے نے کھرلوں اور فتیانوں کو اس وسیع پیمانے پر پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا کہ گوگیرہ ایک بہت بڑ ی جیل میں بدل گیا۔ دہشت پھیلانے کیلئے کچھ مجاہدوں کو پھانسی بھی دے دی۔
برکلے یہ کارروائی کر رہا تھا تو دوسری طرف احمد خان کھرل نے راوی پار جھامرہ رکھ میں بسنے والی برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار کر لیا چنانچہ تمام مقامی سرداروں کی قیادت کرتے ہوئے رائے احمد خاں کا گھوڑ سوار دستہ 26 جولائی 1857ء کو رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوا اور تمام قیدیوں کو چھڑالے گیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ خود قیدی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ اس لڑائی میں پونے چار سو انگریز سپاہی مارے گئے۔ اس واقعہ سے انگریز انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رائے احمد خان گوگیرہ جیل پر حملہ کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت آس پاس کے جنگلوں میں جا چھپا۔ برکلے نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے احمد خان کے قریبی رشتہ داروں ، عزیزوں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے لیا اور پیغام بھیجاکہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دے ،ورنہ اس کے گھر والوں کو گولی مار دی جائے گی۔ اس پر رائے احمد خان کھرل پہلی مرتبہ گرفتار ہوا، مگر فتیانہ ، جاٹوں اور وٹوؤں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر احمد خان کو چھوڑ دیا گیا البتہ اس کی نقل و حرکت کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک محدود کر دیا گیا۔
بات گھر تک آ پہنچی تو مقامی سرداروں نے اکٹھ کیا۔ نورے کی ڈل نامی اس جگہ پہ، راوی کے سب سردار اکٹھے ہوئے۔ ان میں وٹو، قریشی، مخدوم اور گردیزی بھی شامل تھے۔ انگریزوں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں کچھ لوگ تو احمد خان کے ساتھ ہو گئے اور کچھ نے اس کو مشورہ دیا کہ سرکار سے جنگ نہیں کی جا سکتی ۔
اکٹھ میں بڑھ بڑھ کر بولنے والے کمالیہ کے سردار سرفراز کھرل نے رات پڑتے ہی گھوڑیاں سیدھی کیں اور گوگیرے بنگلے جا پہنچا۔ رات کے دو بجے تھے جب برکلے کو جگا کر سب کچھ بتا دیا۔
اگلی صبح، بانگوں سے پہلے بگل بجے اور باغیوں کی بیخ کنی کے لیے کیپٹن بلیک کی کمان میں رسالے کا دستہ روانہ ہوا۔ دوسرے پہر مزید کمک کی صورت ایک اور انگریز افسر، گشکوری کے جنگل جا پہنچا اور آخر میں برکلے بھی آن ملا۔
دراصل سردار سرفراز کی رائے احمد خان کھرل سے خاندانی دشمنی تھی۔
اس مُخبری پر برکلے نے چاروں طرف اپنے قاصد دوڑائے۔ برکلے خود گھڑ سوار پولیس کی ایک پلٹن لے کر تیزی کے ساتھ راوی کے طرف بڑھا تاکہ رائے احمد خان کھرل کو راستے میں ہی روکا جاسکے۔ اس دوران حفاظتی تدابیر کے طور پر گوگیرہ سے سرکاری خزانہ، ریکارڈ اور سٹور تحصیل کی عمارت میں منتقل کر دیے گئے اور گوگیرہ میں انگریز فوجیوں نے مورچہ بندیاں کر لیں۔ کرنل پلٹین خود لاہور سے اپنی رجمنٹ یہاں لے آیا۔ اس کے ہمراہ توپیں بھی تھیں۔
17 ستمبر کو انگریزی فوجوں نے جھامرے پر چڑھائی بھی کردی لیکن رائے احمد خان کھرل گرفتار نہ ہو سکا۔ لیکن گاﺅں کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔ اور تمام مال مویشی کو قبضہ میں لے لیا۔ گوگیرہ‘ چیچہ وطنی‘ ہڑپہ‘ ساہیوال میدان جنگ کی شکل اختیار کرگئے۔ احمد خان کھرل کے خلاف دس فوجی دستے کرنل پیٹن, لفٹینٹ چیشٹر کیپٹن چیمبرلین، کیپٹن سنو کیپٹن میک اینڈ ریو لیفٹینٹ نیوائل اور اسسٹنٹ کمشنر برکلے کی کمان میں بھیجے گئے تھے۔21 ستمبر 1857ءکو ایک بڑا معرکہ ہوا۔
ظہر کے قریب، دھوئیں اور بادل کے ساتھ ساتھ انگریز فوج بھی چھٹ گئی۔ سردار نے وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ تین چار درخت پرے برکلے بھی اپنے پنجابی سپاہیوں کے ساتھ چھپا تھا۔ وہ دوسری رکعت تھی جب ایک سپاہی نے ہاتھ کا کلاوہ بنا کر برکلے صاحب کو درخت کی اوٹ سے رائے احمد خان دکھایا۔ صاحب نے ’’گولی مارو‘‘ کا آرڈر دیا اور دھاڑے سنگھ یا گلاب رائے بیدی میں سے کسی ایک نے گولی چلا دی۔ ان کے ساتھ ان کا بھتیجا مراد کھرل اور سردار سارنگ بھی شہید ہوئے۔
فتح کی نشانی کے طور پہ انگریز افسروں نے پہلے جھامرے کو آگ دکھائی، پھر وٹوؤں کے کئی گاؤں نذر آتش کیے اور آخر کار پنڈی شیخ موسیٰ تک پہنچ گئے۔ دریا پار کرنے کی نوبت آ ئی تو دور جاٹوں کے بلارے سنائی دیتے تھے۔ برکلے نے خیال کیا کہ احمد خان کے بعد اسے روکنے والا کوئی نہیں لہٰذا اس نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ تھوڑا آگے چل کر گھوڑا ذرا ٹھٹھکا اور پھر الف ہو گیا۔ پانیوں سے مراد فتیانے نے اٹھ کر برکلے کو پہلا نیزہ مارا۔ مراد فتیانہ، داد فتیانہ، احمد سیال اور سوجا بھدرو نے پے در پے وار کرکے برکلے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے سردار کا بدلہ لے لیا۔ گورا گھوڑے سمیت دریا برد ہو گیا اور انگریز سپاہ تتر بتر ہونا شروع ہو گئی۔
مراد فتیانہ کے متعلق یہ لوک گیت مشہور ہے۔
آکھے مراد فتیانہ: ساوی تینوں پھراں نت کھرکھرے
تے دیواں کھنڈ نہاری
ہک واری لے چل انگریز برکلی تے
میں ویکھاں اس دی بگھی کالی
ساوی آکھیا: توں کر بسم اللہ دھر پیر رکابے میں حاسداں مار اُڈاری
انگریز دا کلمہ گیا ڈھے سنہری
تے مُڑ ہینوں کڈھ برکلی نوں سٹوئس
جیویں مٹ وچوں لچھا لیندا جھول ہلاری۔
برکلے کی تدفین بنگلہ گوگیرہ میں ہوئی ،جو اُن دنوں ضلعی ہیڈکوارٹر تھا۔ آج اس قبر کے کوئی آثار نہیں ملتے۔انگریز نے ساہیوال میں برکلے کی ایک یادگار بنوائی جو آج بھی موجود ہے۔
گورا فوج نے مراد فتیانہ اور سوجا بھدرو کو پکڑ کر کالے پانی بھجوا دیا تھا۔
دریا کے ساتھ ساتھ چلیں تو سید والہ سے آگے جھامرہ کا قصبہ ہے۔ اس قصبے میں احمد خاں کھرل کا مزار ہے ۔ تاریخ کے قبرستان میں، ان بہادروں کے ساتھ ساتھ، ان کے قصے کہنے والے بھاٹ بھی مدفون ہیں اور ان کے گائے ہوئے ڈھولے اور لکھے ہوئے وار بھی۔ مگر ایک وقت تھا کہ جب پنجاب کی مائیں، احمد خان کھرل کی کہانی لوریوں میں سنایا کرتی تھیں۔ کھرل اگنی کلا راجپوت ہیں اور اپنا تعلق رامائن کے کرداروں سے جوڑتے ہیں مگر کہانی میں کہیں مخدوم جہانیاں شاہ شریف بھی آتا ہے جہاں سے کھرلوں کی تاریخ مسلمان ہو جاتی ہے۔ کوئی نواب سعادت علی کھرل تھے جنہیں عالمگیر نے کمالیہ کی جاگیر دی اور یہ لوگ اس بار میں آباد ہو گئے۔ زمین کی ساجھے داریاں، مذہب کی تفریق سے گہری تھیں سو نکئی سردار گیان سنگھ، خزان سنگھ اور بھگوان سنگھ، رائے صالح خان کھرل کو اپنا بھائی گردانتے تھے۔ گیان سنگھ کی بیٹی، رنجیت سنگھ کی بیوی راج کور بنی تو کھرلوں نے بھی ڈولی کو کاندھا دیا۔ رائے صالح کا آخری وقت آیا تو اس نے سرداری کی پگ اپنے بیٹے کی بجائے اپنے بھتیجے احمد خان کے سر پہ رکھی اور کھرلوں کی سربراہی اسے سونپ دی۔ اسی دوران میں رنجیت سنگھ پنجاب کے تخت پہ بیٹھ گیا تھا۔ جب پورا پنجاب سکھوں کے زیر نگین ہوا تو مہاراجا نے یہ معمول بنایا کہ ایک ایک علاقے میں جا کر عمائدین سے ضرور ملتا۔ سید والہ آمد پہ مصاحبین نے رائے احمد خان کا تعارف کروایا۔ مہاراجا نے احمد خان کو گلے لگایا اور اپنا بھائی کہا۔
ملتان سے لاہور تک احمد خان کے چرچے، چھاؤنیوں اور کچہریوں تک جا پہنچے۔ اب جس عمر میں لوگ سمجھوتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں، احمد کھرل اس وقت جنگ کی تیاری کر رہا تھا۔ جس وقت انگریز فوج جوان بھرتی کر رہی تھی، اس وقت اس کھرل سردار کی عمر 80 سے اوپر تھی۔
رائے احمد آکھے،
جمنا تے مر ونجنا،
ایہہ نال ٹھوکر دے بھج جاونا،
کنگن اے کچی ونگ دا، آکھے لڑ ساں نال انگریز دے،
جیویں بلدی شمع تے جوش پتنگ دا
احمد خاں کھرل کی شہادت پر پہنچ کر وار سنانے اور ڈھول گانے والوں کے گلے رندھ جاتے ہیں۔ دادا پھوگی بتاتا ہے جس دن کھرل گرا، وہ محرم کا دسواں دن تھا۔ گولی لگتے ہی احمد خان سجدے میں گر گیا۔ شہید کا سر گوگیرہ جیل لے جایا گیا۔
رائے احمد خان کھرل کے سر کو دن کے وقت گوگیرہ جیل کے سامنے لٹکا دیا جاتا اور رات کو جیل میں کڑے پہرے میں رکھا جاتا۔
روایت ہے کہ پہرے داروں میں ایک سپاہی جھامرے کا تھا۔ ایک رات اسے خواب میں احمد خان ملا اور کہنے لگا؛ ’’ میرا سر اس مٹی کی امانت ہے مگر انگریز اسے ولائت لے جانا چاہ رہے ہیں‘‘۔
پہرے کی باری آ ئی تو سپاہی نے سر اتار کر گھڑے میں رکھا اور جھامرے لے آیا۔ یہ گرفتاریوں کا دور تھا اور سائے سے بھی مخبری کا خطرہ رہتا تھا سو سپاہی نے رات کے اندھیرے میں احمد خان کی قبر ڈھونڈھی اور کسی کو بتائے بغیر سر دفنا کر لوٹ گیا۔
رائے احمد خان کو گولی مار نے کے بعد برکلے نے مشیروں کے کہنے پہ اس کے بیوی بچوں کو بھی مروانے کا حکم دے دیا۔ سردار کی بیگم نے بچوں کو مراد فتیانہ کے گاؤں روانہ کیا اور ساتھ پیغام بھجوایا کہ تیرا بھائی مارا گیا ہے۔ مراد فتیانہ نے بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھا اور گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ جاتے جاتے اپنی بیگم کو کہا کہ لوٹ آیا تو انہیں خود پالوں گا اور نہ آ سکا تو جہاں چار کا چوگا اکٹھا کرو گی، وہاں ان دو کا بھی کر لینا۔
احمد خان کے بعد ملتان تک انگریزوں کے سامنے کوئی کھڑا نہ ہوا۔ کچھ عرصہ بعد برکلے کا بھائی، بڑا انگریز افسر ہو کر گوگیرہ آیا اور احمد خان کے بیٹے کو طلب کیا۔ پیش ہونے پہ برکلے کے بھائی نے محمد خان سے باپ کا خون بخشنے کو کہا۔ محمد خان نے جواب دیا کہ وہ بیٹا ہو کر باپ کا خون نہیں بخش سکتا۔ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا اور انگریز مزاج میں بھی مصلحت آئی تھی۔ لاٹ صاحب نے اٹھتے ہوئے بات یوں ختم کی؛ ’’ٹھیک ہے! تمہارا باپ مرا اور میرا بھائی، حساب برابر ! مگر اب راوی آباد رہنی چاہیے‘‘، سو راوی دوبارہ بس گئی۔
کئی دہائیوں بعد جب دوسری نسل جوان ہوئی تو ملک آزاد ہو چکا تھا۔ پوتے کو دادے احمد خان کی قبر پکی کروانے کی سوجھی۔ قبر کے ارد گرد بنیادیں کھودی جا رہی تھیں کہ ایک کدال گھڑے کو لگی۔ مزدوروں نے گھڑا توڑ ا تو اندر سر تھا۔ ایک سو دس سال پرانی وجاہت میں ذرا فرق نہیں پڑا تھا۔ داڑھی کے بال ویسے ہی باریک تھے اور آنکھیں ویسی ہی سالم تھیں۔ البتہ، جہاں نیزہ گاڑا گیا تھا وہاں ذرا ذرا نمی محسوس ہوتی تھی۔ عقیدت مندوں کو تو رستا ہوا خون تک دکھائی دے رہا تھا۔ رائے احمد خان کے پوتے نواب احمد علی خان نے جنازہ پڑھایا۔ سر تو جسم کے ساتھ دفن ہو گیا مگر کہانی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھاٹوں کے لب و لہجے میں محفوظ ہو گئی۔ کارل مارکس بھی ’’ساہیوال کے ان شہیدوں‘‘ کا تذکرہ کرتا ہے۔
انگریزوں نے زمین کے ان بیٹوں کا لہو بہانے کا معاوضہ بھی زمین کی صورت میں ہی چکایا۔ پنجاب کی بغاوت کی رپورٹیں پڑھی جائیں تو ملتان کے گردیزیوں سے بار کے سیدوں تک تمام نام، پٹڑی کے ساتھ ساتھ سر سبز زمینوں کے مالکان کے ہیں۔ مراد فتیانہ کے بھائی نے بہاولپور کے نواب کو خط لکھا کہ مجھے اسلحے اور ہتھیاروں کی مد میں کچھ مالی امداد درکار ہے۔ نواب صاحب نے مدد تو خیر کیا کرنا تھی، الٹا چٹھی لے کر انگریز سرکار کے پاس چلے گئے۔ یہ چٹھی آج بھی پنجاب کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پڑی حکمران مزاجوں کا مزاق اڑاتی ہے۔
اوھنوں انکھی نہیں سمجھدی جیہڑا احمد خان دا دکھ وسارے
تہی دست قبائل کا یہ 80 سالہ سردار جس وقت قومی غیرت کا نشاں بنے سامراج کے سامنے سینہ سپر کھڑا تھا۔ عین اسی وقت کچھ درگاہوں کے سجادہ نشین جاگیروں اور نقدی مال و زر کے عوض قومی غیرت و حمیت انگریز سامراج کے قدموں میں نچھاور کیے جا رہے تھے۔
10 جون 1857ءکو ملتان چھاؤنی میں پلاٹون نمبر69 کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو مع دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا۔ آخر جون میں بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ اور پھر تھوڑا تھوڑا کرکے تہ تیغ کیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کر دی۔ تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاؤنی کے درمیان میں واقع پل شوالہ پر دربار بہاءالدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔ یہ مخدوم شاہ محمود قریشی موجودہ شاہ محمود قریشی کے لکڑدادا تھے اور ان کا نام انہی کے نام پر رکھا گیا ہے۔
کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انہیں دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیر لیا اور ان کا قتل عام کیا۔ مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگیں لگا دیں کچھ لوگ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے اور کچھ لوگ پار پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ پار پہنچ جانے والوں کو سید سلطان احمد قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور پیر والہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کر دیا۔
مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کورنگا کی طرف نکل گئی، جسے مہر شاہ آف حویلی کورنگا نے اپنے مریدوں اور لنگڑیال، ہراج، سرگانہ اور ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیر لیا اور چن چن کر شہید کیا۔ مہر شاہ آف حویلی کورنگا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا۔ اسے اس قتل عام میں فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپے نقد یا ایک مربع اراضی عطا کی گی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو 1857 کی جنگ آزادی کے کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نقد، جاگیر، سالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے اور 8 چاہات بطور معافی دوام عطا ہوئی۔ مزید یہ کہ 1860 میں وائسرائے ہندنے بیگی والا باغ عطا کیا۔
مخدوم آف شیر شاہ مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے عوض وسیع جاگیر عطا کی گئی۔
کر دی۔
منٹگمری گزیٹئر میں لکھا ہے کہ ”احمد خان کھرل ایک غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک، دلیر اور ذہن رسا کا مالک انسان تھا۔ اس کی قیادت میں ستلج اور راوی کے تمام نامور قبائل متحد ہو کر بغاوت میں شریک ہوئے ان کا ہیڈ کوارٹر راوی کے اس پار کوٹ کمالیہ تھا۔ “
افسوس کہ 1857ءکی جنگ آزادی میں انگریزوں کی بربریت کا نشانہ بننے والی اور گذشتہ 150 سال تک ظلم کی چکی میں پسنے والی اس علاقے کی برادریوں کی کوئی تاریخ مرتب نہیں کی گئی۔ بہت سے لوگ انگریز کے مظالم سے بچنے کے لیے کھرل سے ”کھر“ اور ”ہرل“ کہلانے لگے۔ ان علاقوں کی سرحدوں پر آباد کھرل اور دوسرے قبائل کی زمینیں چھین کر انگریزوں کے مخبروں کو الاٹ کر دی گئیں۔
انگریز چلے گئے، برصغیر آزاد ہو گیا لیکن حکومتِ پاکستان اور ساہیوال کی ضلعی انتظامیہ کے افسران کو آج تک اس بہادر مجاہد کے نام ایک چوک تک منسوب کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
البتہ ضلعی انتظامیہ فیصل آباد نے نہ صرف گیٹاں والا چوک کو احمد خان کھرل چوک کا نام دیا بلکہ جڑانوالہ کی تحصیل انتظامیہ نے بھی سید والا سے ہو کر جھامرہ جانے والی سڑک پر اس شہید کی یادگار بنوائی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...