پیدائش: 26 دسمبر 1885ء
وفات: 28 جولائی 1972ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے نقاد، ماہرِ لسانیات، محقق و معلم اور ان چند محققین میں شمار ہوتے ہیں جو جدید لسانیات، املا، الفاظ کے ماخذ و اشتقاقیات، تحقیقی طریقہ کار اور تاریخ سمیت قدیم اور جدید زبانوں پر مہارت رکھتے تھے۔ نیز عبد الستار صدیقی عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی پر مہارت اور عبرانی، ترکی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور فارسی کے پروفیسر بھی رہے۔
ڈاکٹرعبد الستار صدیقی 26 دسمبر 1885ء کو اتر پردیش کے ضلع ہردوئی میں واقع سندیلہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغفار ریاست حیدرآباد دکن کے ملازم تھے، چنانچہ ڈاکٹر صدیقی نے اپنی ابتدائی تعلیم گلبرگہ اور حیدرآباد دکن میں اور بی اے کی ڈگری ایم اے او کالج علیگڑھ سے 1907ء میں حاصل کی۔ ناگپور اسکول میں استاد مقرر ہوئے، بعد ازاں مستعفی ہو کر الہٰ آباد یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری لی۔ اسی سال انہیں یورپ کے لئے وظیفہ ملا اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جرمنی چلے گئے، جہاں انھوں نے اسٹروسبرگ یونیورسٹی اور گوتھین یونیورسٹی میں معروف اساتذہ اور ماہرین لسانیات سے کسبِ فیض کیا۔
ڈاکٹر عبد الستار صدیقی نے جرمنی کی یونیورسٹیوں میں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی، ترکی، پہلوی اور سنسکرت زبانیں سیکھی اور 1917ء میں عربی قواعد میں ابن صباوا کے کام پر تحقیق کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعد 1919ء میں ہندوستان واپس آئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ بعد ازاں حیدرآباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں پڑھانے لگے، اسی دوران 1924ء میں ڈاکٹر عبد الستار صدیقی کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبوں کا سربراہ بنا دیا گیا۔
حیدر آباد میں انھوں نے مولوی عبدالحق کا قرب حاصل کیا جس کی بنا پر وہ 1928ء سے 1946ء کے دوران الہٰ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر اور عربی و فارسی شعبوں کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے، وظیفہ یاب ہونے کے بعد ان کو الہٰ آباد یونیورسٹی کے پہلے اعزازی پروفیسر کے عہدہ پر مقرر کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا شمار ان گنے چنے علماء میں ہوتا ہے جو جدید لسانیات، املا، الفاظ کے ماخذ، تحقیقی طریقہ کار، تاریخ سمیت قدیم اور جدید زبانوں پر مہارت رکھتے تھے۔ آپ کو عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی پر تو مہارت اور اس کے ساتھ ساتھ وہ عبرانی، ترکی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ ان کا متعدد زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ کا علم دیگر ماہرین کے لیے بھی حیرت انگیز تھا، 1912ء سے 1919ء تک یورپ خصوصاً جرمنی میں قیام اور وہاں جرمن زبان میں ڈاکٹری مقالہ تحریر کرنے کے دوران انہیں کئی دیگر یورپی زبانوں پر بھی عبور حاصل ہو گیا ۔
ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے جرمن زبان میں ایک کتاب تحریر کی، انہوں نے ایسے فارسی الفاظ پر تحقیق کی جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکل عربی میں پائے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صدیقی کے مضامین اردو جریدوں میں شائع ہوتے تھے جن میں آپ کی 1944ء میں انجمن ترقی اردو ہند کو اردو املا کو ایک معیاری اور منطقی شکل دینے کی شفارشات انتہائی اہم کام تصور کیا جاتا ہے۔
آپ کی ایک تصنیف مقالات صدیقی 1983ء میں ان کے بیٹے نے لکھنؤ کی اردو اکیڈمی سے شائع کرائی، جبکہ ان کے تحقیقی مقالات کے مزید دو مجموعے اشاعت کے منتظر ہیں۔ اسی طرح ان کا تحقیقی کام دیوانِ بیان اور ماخذِ غالب بھی تا حال شائع نہیں ہوسکا ہے۔ آپ کی ایک قابل قدر تحقیق و مدون کردہ کتاب مرابت رشیدی ان کی وفات کے تیس برس بعد مشفق خواجہ نے 2003ء میں شائع کروایا۔ یہ ایک تحقیقی کام ہے، جس میں ایسے عربی الفاظ پر بحث کی گئی ہے جنہیں دیگر زبانوں خصوصاً فارسی زبان سے لیا گیا، اسے سترہویں صدی کے ٹھٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک معروف عالم سید عبد الرشید ٹھٹوی نے تحریر کیا تھا، جو فارسی اور عربی زبان میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کی دو لغات منتخب اللغات (عربی) اور فرہنگ رشیدی (فارسی) (مؤلف عبدالرشید ٹھٹوی) پر آپ کام سند مانا جاتا ہے۔
عربی، فارسی کے ممتاز عالم اور ماہرلسانیات ڈاکٹر عبد الستار صدیقی کا انتقال 28 جولائی 1972ء کو الہ آباد، بھارت میں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد