برصغیر کے ممتاز عالم دین، تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع 25 جنوری 1897ء کو دیوبند میں پیدا ہوئے تھے۔
دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہیں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔
1922ء میں منصب افتاء پر فائز ہوئے اورایک طویل عرصے تک دارالعلوم دیوبند جیسے شہرہ آفاق دینی مرکز کے مفتی رہے۔ 26 سال تک آپ نے دار العلوم دیوبند میں درس حدیث دیا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے مختلف مسائل پر بڑے اہم فتاویٰ دیئے جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ان فتاویٰ کا انتخاب کئی ضخیم جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد آپ نے’’ نانک واڑاہ ‘‘ کراچی میں دارلعلوم دیوبند کی طرز کی درسگاہ قائم کی جس کے آپ صدر تھے کچھ عرصہ بعد یہ دارالعلوم شرافی گوٹھ لاندھی میں منتقل ہو گیا اور اب وہیں قائم ہے اور اب اسے سب ’’ جامعہ دارالعلوم کراچی‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
آج کل اس عظیم الشان اسلامی درس گاہ کے مہتمم مفتی محمد شفیع مرحوم کے صاحب زادے مفتی محمد رفیع عثمانی ہیں جنہیں اس وقت مفتی اعظم پاکستان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
مولانا مفتی محمد شفیع ابتدا میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے بیعت تھے۔ ان کی وفات کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے اور ان کے خلیفہ ہو گئے۔ آپ مولانا اشرف علی تھانوی کے علمی، روحانی اور سیاسی جانشین تھے۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا نے پاکستان میں اسلامی دستور اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے کام میں بھی بڑی سرگرمی سے حصہ لیا۔
1949ء میں قرارداد مقاصد اور 1951ء میں 22 نکات پر مشتمل دستوری تجاویز کی ترتیب و تدوین میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔
حکومت پاکستان نے قیام پاکستان کے بعد جو تعلیمات اسلامیہ بورڈ قائم کیا تھا آپ اس کے رکن تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کے انتقال کے بعد آپ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی صدر بھی رہے۔
صحت کی خرابی کی وجہ سے انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لینا چھوڑ دیا تھا اور اپنی تمام تر توجہ دینی امور پر مرکوز کر دی تھی۔
انڈونیشیا، ملایئشیا، افریقہ، پاکستان، ہندوستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں آپ کے ہزاروں شاگرد موجود ہیں۔
مولانا مفتی محمد شفیع نے درس و تدریس اور خدمت افتاء کے علاوہ قرآن و حدیث فقہی مسائل اور تصوف اصلاح کے موضوعات پر بے شمار علمی اور دینی کتب تصنیف فرمائیں۔ ان تصانیف میں قرآن پاک کی تفسیر معارف القرآن کو اعلیٰ مقام حاصل ہے جو آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔
مفتی صاحب کی تقریبا 100 سے زائد تصانیف ہیں۔ جن میں سب سے مشہور معارف القرآن ہے جو آپ کی وفات سے چار سال پہلے، ریڈیو پاکستان پر ہفتہ وار قرآن کے لیکچرز کی صورت میں نشر ہونا شروع ہوئی۔ بعد ازاں اسے کتابی شکل دی گئی۔
معارف القرآن پہلے ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئی پھر بعد میں کتابی صورت میں مرتب ہوئی، اس تفسیر کے لیے قلم اٹھانے کی وجہ مولانا مفتی شفیع صاحب (رح) نے اپنے مقدمہ میں خود تحریر فرمائی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں :
” ریڈیو پاکستان کے ذمہ دار حضرات نے مجھ سے درس قرآن ریڈیو پاکستان سے نشر کرنے کی فرمائش کی؛ لیکن میں چند اعذار کی بناء پر قبول نہ کر سکا، ان کے مزید اصرار کی وجہ سے انھیں کی ایک دوسری تجویز کو بنام خدا منظور کر لیا، وہ تجویز یہی معارف القرآن کی کہ ہفتہ میں ایک روز جمعہ کے دن تفسیر نشر ہوا کرے اور اس میں پورے قرآن کی تفسیر پیش نظر نہ ہو بلکہ عام مسلمانوں کے موجودہ ضرورت کے پیش نظر خاص خاص آیات کا انتخاب کر کے ان کی تفسیر اور اس سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہوا کرے “۔
پھر آگے لکھتے ہیں :
” اطراف دنیا سے مسلمانوں کے خطوط اور آنے جانے والوں سے یہ معلوم ہوا کہ عام مسلمان اور خصوصاً تعلیم یافتہ حضرات اس درس سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں؛ لیکن اس سلسلہ کی دس سالہ پابندی نے ایک طرف تو ایک ضخیم جلد معارف القرآن کی غیرارادی طور پر تیار کرا دی، دوسری طرف ریڈیو پر سننے والے حضرات کی طرف سے بیشمار تقاضے آنے شروع ہوئے کہ اس کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے “۔
لوگوں کی اس قدر دلچسپی اور ان کے تقاضے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی تفسیریں منظرعام پر آئیں تھیں، ان میں یا تو علمی اور تحقیقی موشگافیاں زیادہ تھیں جن سے عوام پوری طرح مستفید نہیں ہو سکتی تھی، دوسرے یہ کہ اردو زبان کے اسلوب میں پہلے کے مقابلہ کافی تبدیلی آ چکی تھی، اس لیے بھی پہلے کی اردو تفاسیر کا سمجھنا عام لوگوں کے لیے دشوار تھا؛ نیز بعض تفاسیر سرسری اور بہت مختصر تھیں جن سے پڑھنے والوں کی پیاس نہیں بجھ پاتی تھی۔
تفسیر معارف القرآن کی چند خصوصیات یہ ہیں :
چونکہ مصنف موصوف کے پیش نظر یہ تھا کہ عوام جو علمی اصلاحات سے واقف اور دقیق مضامین کے متحمل نہیں ہیں وہ بھی قرآن کریم کو اپنے حوصلے کے مطابق سمجھ سکیں، اس لیے تفسیر کو لکھتے ہوئے اس کی پوری رعایت کی گئی ہے کہ فنی اصطلاحات، دقیق بحثیں اور غیر معروف و مشکل الفاظ سے گریز کیا جائے، تفسیر میں سلف صالحین کی تفسیروں پر اعتماد کیا گیا ہے اور بےسند باتوں سے احتراز کیا گیا ہے؛ چناچہ جگہ بہ جگہ صحابہ و تابعین کے تفسیری اقوال اور متقدمین کی تفسیری کتب سے استفادہ کر کے ان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
لطائف و معارف کے ضمن میں متاخرین میں سے مستند مفسرین کے مضامین بھی لیے گئے ہیں، خصوصاً ایسے مضامین جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عظمت و محبت کو بڑھاتے ہوں اور ان کی وجہ سے اعمال صالحہ انجام دینے کی تحریک ہوتی ہو، متن قرآن کے ترجمہ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) اور حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے ترجموں پر اعتماد کیا گیا ہے، ترجمہ کے بعد مکمل تفسیر و تشریح سے پہلے خلاصہ تفسیر لکھ دیا گیا ہے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی تفسیر بیان القرآن سے ماخوذ ہے، اسے آیات پر مختصر نوٹ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی مشغول آدمی اتنا ہی دیکھ لے تو فہم قرآن کے لیے ایک حد تک کافی ہو جائے، آخر میں آیات مندرجہ سے متعلق احکام و مسائل لکھے گئے ہیں، اس میں اس کا التزام کیا گیا ہے کہ صرف وہ احکام و مسائل لئے جائیں جو کسی نہ کسی طرح الفاظ قرآن کے تحت آتے ہوں، احکام و مسائل کا بڑا حصہ تفسیر قرطبی، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن لابن العربی، تفسیرات احمدیہ، تفسیر محیط، روح المعانی، روح البیان اور بیان القرآن وغیرہ سے لیا گیا ہے، جن کے حوالہ جات بھی مذکور ہیں، تاہم نئے عہد کے بعض نئے مسائل کا بھی ذکر ہے، قرآن و حدیث اور مجتہدین کرام کے اصول کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور جس طرح مسائل و احکام میں متقدمین نے اپنے اپنے عہد کے فرقوں اور اس زمانہ کے مسائل کو اہمیت دی ہے، مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے بھی اس کو ملحوظ رکھا ہے۔
مفتی محمد شفیع صاحب کے چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہیں جن میں سے سب سے بڑے صاحبزادے معروف شاعر محمد زکی کیفی اور سب سے بڑی صاحبزادی نعیمہ خاتون انتقال فرما چکی ہیں۔
حضرت مفتی محمد شفیع ؒایک طویل عرصہ سے دل کی بیماری میں مبتلا تھے اور آپ کے انتقال سے قبل بھی آپ کو دل کے کئی دورے پڑ چکے تھے لیکن 5 اکتوبر 1976ء کو منگل کی دوپہر پونے دو بجے آپ کے دل میں سخت تکلیف ہوئی، شام کو ادارہ انسداد امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر اسلم نے آپ کا معائنہ کیا اور پھر اپنے ساتھ ہی جناح اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں کی انتھک کوششوں کے باوجود 6 اکتوبر 1976ء کی رات کو بارہ بجکر چوبیس منٹ پر آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔آپ کی جدائی سے جو خلا پیدا ہوا تھا وہ کبھی بھی پر نہ ہو سکے گا۔
مولانا مفتی محمد شفیع نے 6 اکتوبر 1976ء کو کراچی میں وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ ڈاکٹر عبدالحئی نے پڑھائی اور آپ کو دارالعلوم کراچی کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
آپ نے تقریباً تمام عمر دین کی خدمت میں بسر کی آپ حد سے زیادہ منکسرالمزاج اور بہت سی خوبیوں کا مجموعہ تھے جو کسی ایک شخصیت میں کم ہی جمع ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن بھی تھے اور ملک و قوم کے سچے بہی خواہ بھی۔ آپ جیسے یگانہ روز گار لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، آپ ایک منفرد حیثیت اور مقام کے مالک تھے، آپ کی جدائی بلاشبہ ایک عظیم قومی سانح کی حیثیت رکھتی ہے۔
آپ کے ہزاروں معتقدین نے آپ کی نماز جنازہ حضرت ڈاکٹر عبدلحئی کی امامت میں دارالعلوم کورنگی کراچی میں ادا کی پھر آپ کو دارالعلوم کی چاردیواری میں واقع قدیم قبرستان لے جایا گیا جہاں ہزاروں اشکبار آنکھوں نے آپ کے لئے دعا کی اور آپ کو بڑے ہی رنج و غم کے ساتھ آپکی آخری آرام گاہ میں اتارا گیا اور پھر یوں اس صدی کے عظیم اسلامی رہنما کی تدفین کی گئی۔
اس موقع پر پاکستان کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی۔ اس موقع پر دارالعلوم کورنگی کی وسیع و عریض مسجد اور میدان میں حد نگاہ تک لوگ ہی لوگ نظر آ رہے تھے جس سے اندازہ ہوا کہ مفتی صاحب عام لوگوں میں کس قدر چاہے جاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد