آج – 14؍اکتوبر 1875
حُسنِ تغزل، رئیس المتغزلین ” مولانا حسرتؔ موہانی صاحب “ کا یومِ ولادت…
حسرتؔ موہانی ، سیّد فضل الحسن نام ، حسرتؔ تخلص۔ ١٤؍اکتوبر ۱۸۷۵ء کو قصبہ موہان ضلع اناو(اودھ) میں پیدا ہوئے۔۱۸۹۴ء میں آپ نے اردو مڈل کا امتحان موہان سے پاس کیا اور پورے صوبے میں اول آئے۔ ۱۸۹۹ء میں انٹرنس کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور وظیفہ لے کر اعلا تعلیم کے لیے علی گڑھ پہنچے۔ ۱۹۰۳ء میں حسرتؔ نے علی گڑھ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔۱۹۰۴ء میں انھوں نے علی گڑھ سے ’’اردوئے معلی‘‘ جاری کیا۔ تسلیمؔ لکھنوی سے تلمذ حاصل تھا۔ آزادئ وطن کی خاطر متعدد بار جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ شاعر کے علاوہ ایک اچھے نقاد اور سیاست دان تھے۔ حسرتؔ ’’رئیس المتغزلین‘‘ کہلاتے تھے۔ وہ اپنے گھر کا کام خود کرتے تھے۔ ان کی زندگی بہت سادہ اور فقیرانہ تھی۔ ریل میں ہمیشہ وہ تیسرے درجے میں سفر کرتے تھے۔ انھوں نے کئی بار حج کی سعادت حاصل کی۔ ۱۳؍مئی ۱۹۵۱ء کو لکھنؤ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’کلیاتِ حسرت‘‘، ’’شرحِ دیوانِ غالب‘‘، ’’مشاہداتِ زنداں‘‘ ۔ اس کے علاوہ حسرت نے اساتذہ قدیم وجدید کے کلام کا انتخاب متعدد جلدوں میں کیا ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:262
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
رئیس المتغزلین مولانا حسرتؔ موہانی صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب مقبول اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا
—
دل کو خیالِ یار نے مخمور کر دیا
ساغر کو رنگِ بادہ نے پرُ نور کر دیا
—
گر یہی ہے ستم یار تو ہم نے حسرتؔ
نہ کیا کچھ بھی جو دنیا سے کنارا نہ کیا
—
آئنہ پیکرِ تصویر نگاہِ مشتاق
جسے دیکھا تری محفل میں وہ حیراں نکلا
—
اے زہد خشک تیری ہدایت کے واسطے
سوغاتِ عشق لائے ہیں کوئے بتاں سے ہم
—
روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتشِ گل سے چمن تمام
—
اس بت کے پجاری ہیں مسلمان ہزاروں
بگڑے ہیں اسی کفر میں ایمان ہزاروں
—
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترکِ الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں
—
التفاتِ یار تھا اک خواب آغازِ وفا
سچ ہوا کرتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں کہیں
—
معلوم ہے دنیا کو یہ حسرتؔ کی حقیقت
خلوت میں وہ مے خوار ہے جلوت میں نمازی
—
تاباں جو نور حسن بہ سیمائے عشق ہے
کس درجہ دل پذیر تماشائے عشق ہے
—
تاثیر برقِ حسن جو ان کے سخن میں تھی
اک لرزشِ خفی مرے سارے بدن میں تھی
—
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے
—
خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی
دامنوں کی نہ خبر ہے نہ گریبانوں کی
—
ستم ہو جائے تمہیدِ کرم ایسا بھی ہوتا ہے
محبت میں بتا اے ضبطِ غم ایسا بھی ہوتا ہے
—
بے نقاب آنے کو ہیں مقتل میں وہ بے شک مگر
دیکھنے کاہے کو دے گی میری حیرانی مجھے
—
نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
—
ہر چند ہے دل شیدا حریتِ کامل کا
منظور دعا لیکن ہے قیدِ محبت بھی
—
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
—
وہ آئے مگر آئے کس وقت حسرتؔ
کہ ہم چل بسے مرحبا کہتے کہتے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
مولانا حسرتؔ موہانی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ