اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
آج اس شاعر کے خالق محشر بدایونی کی چوبیسویں برسی ہے۔
محشر بدایونی کا نام فاروق احمد تھا۔4؍مئی1922ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ اردو اور فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔1947ء میں پاکستان آگئے۔ پہلے محکمۂ سپلائی میں ملازم ہوئے اور پھراگست 1950ء میں ریڈیو پاکستان کے جریدے ’’آہنگ‘‘ کے مدیر معاون بن گئے ۔ بعد میں ایک عرصہ ’’ آہنگ ‘‘ کے مدیر رہے۔ ان کے والد تاریخ گو شاعر تھے۔اس طرح شاعری محشر بدایونی کو ورثے میں ملی۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن تھی۔ 9؍نومبر 1994ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
ان کی شاعری کے مجموعے اور دوسری کتب یہ ہیں:
بین باجے’غزل دریا‘(آدمی جی ایوارڈ یافتہ) ’چراغ میرے ہم نوا‘، ’فصل فردا‘، ’شہروفا‘، ’گردش کوزہ‘، ’حرف ثنا‘، ’بین باجے‘، ’شاعر نامہ‘،’ سائنس نامہ‘، ’جگ مگ تارے‘
ان کے کچھہ اور شعر
ابھی سر کا لہو تھمنے نہ پایا
ادھر سے ایک پتھر اور آیا
کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھہ لوگ ہیں اس پار میرے
بہت دن گزرے اب دیکھہ آؤں گھر کو
کہیں گے کیا درو دیوار میرے
وہیں سورج کی نظریں تھیں زیادہ
جہاں تھے پیڑ سایہ دار میرے
ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی
جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے
ہر پتی بوجھل ہو کے گری سب شاخیں جھک کر ٹوٹ گئیں
اس بارش ہی سے فصل اجڑی جس بارش سے تیار ہوئی
گھر بس اتنا ہی ہوا دار اچھا
حَبس چھٹ جائے دیا جلتا رہے
سُکھہ سے تو فن کبھی پنپتا ہی نہیں
جو دُکھی ہے وہی فن کار اچھا
اجازت ہے سب اسبابِ سفر تم چھین لو مجھہ سے
یہ سورج، یہ شجر، یہ دھوپ ، یہ سایہ تو میرا ہے
کچھہ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
مِلائیں ہاتھہ تو خوشبو نہ ہاتھہ کی جائے