آج یکم اکتوبر جھنگ سے تعلق رکھنے والے مایا ناز ادیب، مصنف، شاعر اور مبصر جناب عامر عبداللہ Aamir Abdullah کا جنم دن ہے۔ ایک لکھاری اور نو آموز شاعر ہونے کی حیثیت سے ایسی شخصیات کے ساتھ بیٹھک جہاں میرے لئے سیکھنے کا باعث ہے وہیں مسرت و شرف کا مقام بھی رکھتی ہے۔ آپ پنجابی، اردو اور انگریزی تینوں زبانوں کے ادب کی ترویج و اشاعت کیلئے جس قدر محنت کر رہے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ نظم کی دنیا کے سورج، غزل کی دنیا کے گوہر اور مصرع کہنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ اگر آپ کو استاذ شعراء میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا!!!! اگرچہ آپ کی سادگی اور اپنے فن کی دھن میرے تمام تعریفی کلمات سے آپ کو ممتاز کرتی ہے۔ میرے لئے اور تخلیق کاروں کیلئے آپ کی شخصیت قابل رشک ہے کہ آپ جہان ادب میں اپنا مقام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی فنی مہارت کو منوا چکے ہیں وہیں نوجوان تخلیق کاروں کیلئے مشعل راہ بھی ہیں۔یکم اکتوبر کی ہی شام جھنگ اردو اکیڈمی اور اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنسز کے زیر اہتمام آپ کا جنم دن میٹھی مسرتوں میں میٹھے کیک کے ساتھ منایا گیا۔ آپ کو جنم دن کی اور ایسی کامیابیوں کیلئے ڈھیروں مبارکباد۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آئندہ سالوں میں بغیر کسی رنج، مصیبت اور بلاؤں کے محفوظ و تندرست اسی طرح ہمارے ساتھ قائم رکھے۔ آمین۔ آخر میں آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتی بالترتیب پنجابی، اردو اور انگریزی نظموں کا انتخاب قارئین کی نظر۔
"چیتا رکھیں یار "
عامر عبدالله ۔۔۔۔۔۔
میں لاہندے ول ٹریا ہویا
میرا پینڈا ڈاڈھا اوکھا
تتی ریت دی واٹ
وا دے کوڑے بلے گھلے
سا ہ ہویا ہے تنگ
چھٹیاں لکھ تراٹان سینے
میں ناں چھڈی جنگ
پھلاں نوں ناں چیتے آیا
میرا ہار سنگھار
ککراں توں میں کنڈ یاں دا وے
منگیا ہار ادھار
گل میرے وچ کھبھیاں نوکاں
واہندی لہو دی دھار
میں لاہندے ول ٹریا ہویا
لوں لوں دے وچ اگ
سڑ گیے سارے جھمر جھٹے
سڑ گئی میری پگ
بل بل میرے سامنے ہو گیے
لیڑے سبھے سواہ
الف تلف میں سامنے اپنے
لکن دی نئیں جاہ
اپنا ننگ میں ہاں تے چا کے
جے ناں اپڑ یا پار
جے کر ہجر دی دھار ترکھی
وڈھ سٹیا وچ کار
میں تیرے ول ٹریا ہاموں
چیتا رکھیں یار !!!
"چیتا رکھیں یار "
عامر عبدالله ۔۔۔۔۔۔
عنوان : اے میری لاڈلی
شاعر: عامر عبداللہ
میری بیٹی
اےمیری لاڈلی
جدائی جو ہمارے درمیاں ہے
ایک دن اس کو لپیٹوں گا
پرانی کشتیوں کے بادبانوں کی طرح
جو لوٹ کر آئی ہوں اک لمبے سفر سے
ان گنت انجان دنیائیں
پرانےکوٹ کی جیبوں میں رکھی ہیں
تمھارےسامنے میں ڈھیر کر دوں گا
بہت مشکل سہی لیکن
بہاؤ کاٹ کر پانی کا
تم سے آ ملوں گا
اےمیری لاڈلی
میں جانتا ہوں
ہرطرف مٹی کی پیالوں میں
بھرازہریلا پانی ہے
تمھارےجسم میں جو
خون کی مقدار سے بھی بڑھ گیا ہے
فلک کی سمت تکتا ہوں
فلک کے ہونٹ نیلے ہیں
زمیں کا رنگ تو تم جانتی ہو
سرخ تھی جب میں
تمھارے نرم رخساروں پر بوسہ ثبت کر کے
ناؤتک پہنچا تھا
اور چپواٹھاے تھے
مری بیٹی
نہیں اب خوف مت کھاؤ
ہمیں اندوہ میں
جس نے جدائی کے رکھا
ماتم کناں جسموں کا اک انبوہ
اس کی سمت بڑھتا آ رہا ہے
دیکھ کر ڈرتا ہے وہ
گنبدکے اڑتے رنگ
دیواروں کی درزوں میں اگی کائی
اذاں دیتے موذن کی
زباں کی کپکپاہٹ نے
اسےتشویش میں ڈالا ہے
اب ترک سکونت کی ضرورت ہے اسے
وہ اپنے کل کی فکر میں ہے !!!!
"Blow the candle out.."
. . . ………. . . . . .
Aamir Abdullah
Blow the candle out
Let the dark prevail
And swallow the stars
To calm down its hunger
Let the light be prey
Of the black bastards
And watch the play of
Prey and predator
Well! If you think
I am the enemy of light
Then be sure, I am not
Be sure I am the one
Eager to serve the
Kingdom of fireflies
Blow the candle out
And preserve the flame
Into your heart
To light the moon
at the celebrations of the
First blossom of the new spring
Now not too far !!!!